مشکوٰۃ المصابیح - رویت ہلال کا بیان - حدیث نمبر 1973
وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إنا أمة أمية لا تكتب ولا تحسب الشهر هكذا وهكذا وهكذا . وعقد الإبهام في الثالثة . ثم قال : الشهر هكذا وهكذا وهكذا . يعني تمام الثلاثين يعني مرة تسعا وعشرين ومرة ثلاثين
نجوم کے قواعد سے چاند کا ثبوت معتبر نہیں ہوتا
حضرت ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ہم اہل عرب امی قوم ہیں کہ حساب کتاب نہیں جانتے مہینہ اتنا اور اتنا اور اتنا ہوتا ہے (لفظ اتنا تین مرتبہ کہتے ہوئے آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دو مرتبہ بند کیں اور پھر کھول دیں) اور تیسری مرتبہ میں ہاتھوں کی انگلیاں بند کر کے پھر نو انگلیاں تو کھول دیں اور انگوٹھا بند کئے رکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ کبھی تو مہینے میں ایک کم تیس دن ہوتے ہیں یعنی انتیس کا مہینہ ہوتا ہے اور پھر فرمایا مہینہ اتنا اور اتنا (اور اس مرتبہ آپ ﷺ نے تیس کا عدد بتانے لئے پہلے کی طرح تیس مرتبہ میں انگوٹھا بند نہیں رکھا) یعنی پورے تیس دن کا ہوتا ہے آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ کبھی تو مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا ہوتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اہل عرب کو امی اس لئے فرمایا گیا کہ وہ جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے تھے ویسے ہی رہتے تھے پڑھتے لکھتے نہیں تھے۔ مگر آپ ﷺ نے یہ اکثر کے اعتبار سے فرمایا ہے کیونکہ اگرچہ عرب میں تعلیم عام نہیں تھی اور اکثریت بےپڑھے لکھے لوگوں کی تھی مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ لوگ علم کے زیور سے آراستہ ہوتے ہی تھے یا اس جملے سے آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ اہل عرب حساب کتاب اچھی طرح نہیں جانتے۔ بہرحال حدیث کے معنی یہ ہیں کہ نجوم کے قواعد پر عمل کرنا ہمارا شیوہ اور طریقہ نہیں ہے اور نہ نجوم کے قواعد و حساب سے جیسا کہ جنتری وغیر میں لکھا ہوتا ہے چاند کا ثبوت معتبر ہوسکتا ہے بلکہ اس بارے میں ہمارا علم صرف رویت ہلال سے متعلق ہے کہ اگر چاند دیکھا جائے گا یا چاند کی رویت شرعی قواعد و ضوابط کے تحت ثابت ہوجائے گی تو روزہ شروع ہوگا یا اس کا اختتام ہوگا اسی بات کے آخر میں وضاحت کی گئی کہ کسی مہینے میں چاند انتیس تاریخ کو ہوتا ہے اور کسی مہینے میں تیس تاریخ کو۔ روایت کی آخری عبارت کے دونوں جملے یعنی تمام الثلثین اور یعنی مرۃ تسعا الخ راوی کے الفاظ ہیں پہلے جملہ سے تو راوی نے آنحضرت ﷺ کے آخری اشارے کو بیان کیا ہے اور دوسرے جملے کے ذریعے دونوں چیزوں کی وضاحت کردی ہے۔
Top