مشکوٰۃ المصابیح - بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے جو چیز خرچ کرسکتی ہے اس کا بیان - حدیث نمبر 1951
عن عمير مولى آبي اللحم قال : أمرني مولاي أن أقدد لحما فجاءني مسكين فأطعمته منه فعلم بذلك مولاي فضربني فأتيت رسول الله صلى الله عليه و سلم فذكرت ذلك له فدعاه فقال : لم ضربته ؟ فقال يعطي طعامي بغير أن آمره فقال : الأجر بينكما . وفي رواية قال : كنت مملوكا فسألت رسول الله صلى الله عليه و سلم : أأتصدق من مال موالي بشيء ؟ قال : نعم والأجر بينكما نصفان . رواه مسلم
مالک کی اجازت کے بغیر خرچ کرنا مناسب نہیں ہے
حضرت ابواللحم ؓ کے آزاد کردہ غلام عمیر ؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے آقا کے حکم کے مطابق گوشت (کو سکھانے کے لئے اس) کے پارچے بنا رہا تھا کہ میرے پاس ایک مسکین و فقیر آیا میں نے اسے اس میں سے کھانے کے لئے دے دیا۔ جب میرے آقا کو اس کا علم ہوا تو اس نے مجھے مارا میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے پورا ماجرا کہہ سنایا۔ آپ ﷺ نے میرے آقا کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تم نے اسے کیوں مارا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ میرے کھانے میں سے بغیر میری اجازت کے دے دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ (اگر تم صدقہ کرنے کا حکم دے دیتے یا اس کے صدقہ کرنے سے تم راضی و خوش ہوتے تو) تم دونوں ثواب کے حق دار ہوتے۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ عمیر نے کہا کہ میں ایک شخص کا غلام تھا چناچہ میں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ کیا میں اپنے مالک کے مال میں کچھ (یعنی قلیل و کمتر درجہ کی چیز جس کے خرچ کرنے کی عام طور پر اجازت ہوتی ہے) بطور صدقہ خرچ کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اور اس کا ثواب تم دونوں کو آدھا آدھا ملے گا (مسلم)

تشریح
علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے عمیر کی شکایت پر ان کے آقا ابواللحم سے جو کچھ کہا یا عمیر کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مالک کے مال میں غلام و ملازم کو مطلقاً تصرف کا حق حاصل ہے بلکہ آپ ﷺ نے تو صرف اس بات پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا کہ غلام و ملازم کو کسی ایسی بات پر مارا جائے جسے مالک تو غلطی یا اپنا نقصان تصور کرتا ہے مگر حقیقت میں وہ مالک کے حق میں غلطی یا نقصان نہیں ہے بلکہ اس کے اس میں بہتری و بھلائی ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ نے ابواللحم ؓ کو ترغیب دلائی کہ ان کے غلام نے ان کے حق میں چونکہ بہتر اور نیک کام ہی کیا ہے۔ اس لئے اس سے درگرزر کریں اور ثواب کو غنیمت جانیں جو ان کا مال خرچ ہونے کی وجہ سے انہیں ملا ہے۔ گویا یہ ابواللحم کے لئے آپ ﷺ کی رہنمائی اور تعلیم تھی نہ کہ عمیر کے فعل کی تقریر یعنی عمیر کے فعل کو آپ نے جائز قرار نہیں دیا۔
Top