مشکوٰۃ المصابیح - بہترین صدقہ کا بیان - حدیث نمبر 1942
عن أنس بن مالك قال : كان أبو طلحة أكثر أنصاري بالمدينة مالا من نخل وكان أحب أمواله إليه بيرحاء وكانت مستقبل المسجد وكان رسول الله صلى الله عليه و سلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب قال أنس فلما نزلت ( لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون ) قام أبو طلحة فقال يا رسول الله إن الله تعالى يقول : ( لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون ) وإن أحب مالي إلي بيرحاء وإنها صدقة لله أرجو برها وذخرها عند الله فضعها يا رسول الله حيث أراك الله فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : بخ بخ ذلك مال رابح وقد سمعت ما قلت وإني أرى أن تجعلها في الأقربين . فقال أبو طلحة أفعل يا رسول الله فقسمها أبو طلحة في أقاربه وفي بني عمه
ابو طلحہ ؓ کا جذبہ سخاوت
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ ؓ مدینہ کے انصار میں کھجوروں کے اعتبار سے بہت زیادہ مال دار تھے اپنے مال میں انہوں سب سے زیادہ پسند اپنا باغ بیر حاء (نامی) تھا جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا، رسول کریم ﷺ بھی اکثر اس باغ میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں کا پانی پیتے تھے جو بہت اچھا (یعنی شیریں یا یہ کہ بلا کسی شک و شبہہ کے حلال و پاک تھا) حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی نیکی (یعنی جنت) کو اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ تم وہ چیز (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جو تمہارے نزدیک پسندیدہ ہے۔ تو حضرت ابوطلحہ ؓ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی یعنی جنت تک نہیں پہنچ سکتے تا وقتیکہ اپنی اس چیز کو خرچ نہ کرو جو تمہارے نزدیک پسندیدہ ہے لہٰذا بیر حاء جو تمام مال میں مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے میں اسے اللہ کے واسطے صدقہ کرتا ہوں اور (اس آیت کریمہ کے پیش نظر) اس سے نیکی کی امید رکھتا ہوں اور امیدوار ہوں کہ اللہ کے نزدیک میرے لئے ذخیر آخرت ہوگا۔ پس یا رسول اللہ! اسے قبول فرمائیے (اور) جہاں اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو بتائے (یعنی جس جگہ آپ ﷺ مناسب سمجھیں اسے خرچ فرمائیے) رول کریم ﷺ نے فرمایا شاباش! شاباش! یہ باغ نفع پہنچانے والا مال ہے جو کچھ تم نے کہا ہے میں نے سن لیا ہے میرے نزدیک مناسب ہے کہ تم اس باغ کو اپنے (محتاج) اقرباء میں تقسیم کردو (تاکہ صدقہ کے ثواب کے ساتھ صلہ رحمی کا ثواب بھی مل جائے) ابوطلحہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کے ارشاد کے مطابق ہی عمل کروں گا، چناچہ ابوطلحہ ؓ نے اس باغ کو اپنے اقرباء اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کردیا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
جہاں یہ احتمال ہے کہ بنی عمہ (چچا کے بیٹے) اقاربہ کا بیان ہو وہیں یہ احتمال بھی ہے کہ اقا رب سے چچا کے بیٹوں کے علاوہ دوسرے اقرباء مراد ہوں۔
Top