مشکوٰۃ المصابیح - بہترین صدقہ کا بیان - حدیث نمبر 1931
وعن زينب امرأة عبد الله بن مسعود قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : تصدقن يا معشر النساء ولو من حليكن قالت فرجعت إلى عبد الله فقلت إنك رجل خفيف ذات اليد وإن رسول الله صلى الله عليه و سلم قد أمرنا بالصدقة فأته فاسأله فإن كان ذلك يجزي عني وإلا صرفتها إلى غيركم قالت فقال لي عبد الله بل ائتيه أنت قالت فانطلقت فإذا امرأة من الأنصار بباب رسول الله صلى الله عليه و سلم حاجتي حاجتها قالت وكان رسول الله صلى الله عليه و سلم قد ألقيت عليه المهابة . فقالت فخرج علينا بلال فقلنا له ائت رسول الله صلى الله عليه و سلم فأخبره أن امرأتين بالباب تسألانك أتجزئ الصدقة عنهما على أزواجهما وعلى أيتام في حجورهما ولا تخبره من نحن . قالت فدخل بلال على رسول الله صلى الله عليه و سلم فسأله فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : من هما . فقال امرأة من الأنصار وزينب فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أي الزيانب . قال امرأة عبد الله فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : لهما أجران أجر القرابة وأجر الصدقة . واللفظ لمسلم
اپنی بیوی یا اپنے شوہر کو صدقہ دینے کا مسئلہ
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی زوجہ محترمہ حضرت زینب ؓ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ مجلس ذکر و نصیحت میں عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اے عورتوں کی جماعت! صدقہ و خیرات کرو، اگرچہ وہ تمہارے زیورات ہی میں سے کیوں نہ ہو! حضرت زینب ؓ کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں آنحضرت ﷺ کی مجلس سے عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آئی اور ان سے کہنے لگی کہ آپ خالی ہاتھ یعنی مفلس مرد ہیں اور چونکہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں صدقہ و خیرات کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اس لئے آپ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جا کر یہ معلوم کریں کہ اگر میں آپ پر اور آپ کی اولاد پر بطور صدقہ خرچ کروں تو آیا یہ صدقہ میرے لئے کافی ہوگا یا نہیں؟ اگر آپ کو اور آپ کی اولاد کو میرا صدقہ دینا میرے لئے کافی ہوجائے تو پھر آپ ہی کو صدقہ دے دوں اور اگر یہ میرے لئے کافی نہ ہو تو پھر آپ کے علاوہ دوسرے لوگوں پر بطور صدقہ خرچ کروں! حضرت زینب ؓ کہتی ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے مجھ سے کہا کہ تم ہی جاؤ اور رسول کریم ﷺ سے اس بارے میں پوچھ لو چناچہ میں خود آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی میں وہاں کیا دیکھتی ہوں کہ رسول کریم ﷺ کے دروازے پر انصار کی ایک عورت کھڑی ہے اور (وہاں آنے کی) ہماری حاجت یکساں تھی۔ (یعنی وہ وہ بھی معلوم کرنے آئی تھی کہ آیا میں اپنے صدقہ کا مال اپنے خاوند اور اس کے متعلقین کو دے سکتی ہوں یا نہیں؟ حضرت زینب ؓ کہتی ہیں کہ چونکہ رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس ہیبت و عظمت کا پیکر تھی اس لئے ہمیں آپ ﷺ کے پاس جانے کی جرات نہ ہوئی اور ہم وہاں سے نکل کر حضرت بلال ؓ کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ آپ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں جا کر کہئے کہ دروازے پر کھڑی ہوئی دو عورتیں آپ ﷺ سے پوچھتی ہیں کہ کیا اپنے شوہروں اور ان یتیموں کو جو ان کی پرورش میں ہیں ان کا صدقہ دینا ان کے لئے کافی ہوجائے گا مگر دیکھئے آنحضرت ﷺ کو یہ نہ بتائیے گا کہ ہم کون ہیں؟ یعنی انہوں نے اپنے آپ کو ظاہر کر کے ریا سے بچنے میں مبالغہ کیا کہ پہلے تو آنحضرت ﷺ نے بلال سے پوچھا کہ دو عورتیں کون ہیں؟ حضرت بلال ؓ نے کہا کہ ایک تو انصار کی کوئی عورت ہے اور دوسری زینب ؓ ہیں اپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کون سی زینب؟ (کیونکہ زینب نام کی کئی عورتیں ہیں) حضرت بلال ؓ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی بیوی! پھر آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ (ان سے جا کر کہہ دو کہ اس صورت میں) ان کے لئے دوہرا ثواب ہے، ایک تو حق قربت کی ادائیگی کا اور دوسرا صدقہ دینے کا۔ (بخاری و مسلم الفاظ مسلم کے ہیں)۔

تشریح
قد القیت علیہ المہایہ، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس کو ہیبت و عظمت کا ایسا پیکر بنایا تھا کہ لوگ آپ ﷺ سے مرعوب ہوتے، ڈرتے اور آپ ﷺ کی بےانتہا تعظیم کرتے تھے اسی وجہ سے کسی کو بھی جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ اچانک آپ ﷺ کی خدمت میں پہنچ جائے اور ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کی یہ عظمت وہیبت (نعوذ باللہ) آپ ﷺ کی کسی بد خلقی اور خشونت کی وجہ سے نہیں تھی۔ بلکہ یہ تو اللہ داد تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اس عظمت وہیبت کو آپ ﷺ کی عزت و تعظیم کا سبب بنایا تھا۔ جب حضرت زینب ؓ نے حضرت بلال ؓ کو منع کردیا تھا کہ وہ ان کے نام آنحضرت ﷺ کو نہ بتائیں تو انہیں ان کی اس خواہش کا احترام کرنا چاہئے تھا مگر آنحضرت ﷺ نے چونکہ ان سے ان عورتوں کا نام پوچھا اس لئے آنحضرت ﷺ کے حکم کی بناء پر ان کے لئے یہ ہی ضروری ہوگیا تھا کہ وہ ان کا نام بتادیں چناچہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل کی۔ یہ حدیث کی وضاحت تھی اب اصل مسئلہ کی طرف آئیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آیا کوئی عورت اپنے خاوند یا کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنی زکوٰۃ کا مال دے سکتا ہے یا نہیں۔ لہٰذا اس بارے میں تو بالاتفاق تمام علماء کا یہ مسلک ہے کہ کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنی زکوٰۃ کا مال نہ دے مگر اس کے برعکس صورت میں امام ابوحنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ کوئی عورت اپنے خاوند کو اپنی زکوٰۃ کا مال نہ دے کیونکہ مرد کے منافع اور مال میں عادۃ اکثر دونوں ہی شریک ہوتے ہیں اس طرح کوئی عورت اپنے خاوند کو زکوٰۃ کا مال دے گی تو اس مال سے خود بھی فائدہ حاصل کرے گی جو جائز نہیں ہوگا۔ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ جس طرح مرد کا اپنی بیوی کو زکوٰۃ کا مال دینا جائز ہے اسی طرح بیوی بھی اپنی زکوٰۃ کا مال اپنے خاوند کو دے سکتی ہے ائمہ کے اس اختلاف کی بنا پر کہا جائے گا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اس مذکور صدقہ سے صدقہ نفل مراد ہوگا اور صاحبین کے نزدیک اس سے صدقہ نفل بھی مراد ہوسکتا ہے اور صدقہ فرض یعنی زکوٰۃ کو بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔
Top