مشکوٰۃ المصابیح - صدقہ کی فضیلت کا بیان - حدیث نمبر 1919
وعن أبي ذر عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : ثلاثة يحبهم الله وثلاثة يبغضهم الله فأما الذين يحبهم الله فرجل أتى قوما فسألهم بالله ولم يسألهم بقرابة بينه وبينهم فمنعوه فتخلف رجل بأعيانهم فأعطاه سرا لا يعلم بعطيته إلا الله والذي أعطاه وقوم ساروا ليلتهم حتى إذا كان النوم أحب إليهم مما يعدل به فوضعوا رءوسهم فقام يتملقني ويتلو آياتي ورجل كان في سرية فلقي العدو فهزموا وأقبل بصدره حتى يقتل أو يفتح له والثلاثة الذين يبغضهم الله الشيخ الزاني والفقير المختال والغني الظلوم . رواه الترمذي والنسائي
پوشیدہ طور پر صدقہ دینے کی فضیلت
حضرت ابوذر ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے اور تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دشمن رکھتا ہے چناچہ وہ اشخاص کہ جنہیں اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے ان میں سے ایک تو وہ شخص ہے کہ جس نے ایسے شخص کو صدقہ دیا جو ایک جماعت کے پاس آیا اور اس سے اللہ کی قسم دے کر کچھ مانگا یعنی یوں کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے اتنا مال یا اتنی چیز دو اس نے جماعت سے حق قرابت کی وجہ سے دیا جو اس کے اور جماعت کے درمیان تھا۔ مگر جماعت والوں نے اسے کچھ بھی نہیں دیا، چناچہ ایک شخص نے جماعت کو پس پشت ڈالا اور آگے بڑھ کر سائل کو پوشیدہ طور پردے دیا، سوائے اللہ کے اور اس شخص کے کہ جسے اس نے دیا اور کسی نے اس کے عطیہ کو نہیں جانا اور دوسرا وہ شخص ہے جو جماعت کے ساتھ تمام رات چلا یہاں تک کہ جب ان کے لئے نیند ان تمام چیزوں سے زیادہ جو نیند کے برابر ہیں پیاری ہوئی تو جماعت کے تمام فرد سو گئے مگر وہ شخص کھڑا ہوا (اللہ فرماتا ہے کہ) اور میرے سامنے گڑ گڑانے لگا اور میری آیتیں (یعنی قرآن کریم) پڑھنے لگا۔ اور تیسرا شخص وہ ہے جو لشکر میں شامل تھا جب دشمن سے مقابلہ ہوا تو اس کے لشکر کو شکست ہوگئی مگر وہ شخص دشمن کے مقابلے پر سینہ سپر ہوگیا یہاں تک کہ شہید ہوگیا یا فتح یاب اور وہ تین شخص جو اللہ کے نزدیک مبغوض ہیں ان میں سے ایک شخص تو وہ ہے جو بوڑھا ہونے کے باوجود زنا کرے، دوسرا شخص تکبر کرنے والا فقیر ہے اور تیسرا شخص دولت مند ظلم کرنے والا ہے (یعنی وہ شخص دولت مند ہوتے ہوئے قرض دینے والے کو قرض کی ادائیگی نہ کرے یا دوسروں کے ساتھ اور کسی ظلم کا معاملہ کرے) (ترمذی)

تشریح
حدیث کی ابتدا جس اسلوب سے ہوئی اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے مگر بعد کے اسلوب یعنی حدیث کے الفاظ یتملقنی۔ اور میرے سامنے گڑ گڑانے لگا۔ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ ارشاد نبوی نہیں ہے بلکہ کلام الٰہی یعنی حدیث قدسی ہے اسلوب کے اس اختلاف کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ یہ حدیث حقیقت میں تو ارشاد نبوی ﷺ ہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ اپنے نبی سے وہ کیفیت بیان کی جو اس کے اور اس کے بندے کے درمیان واقع ہوتی ہے اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر اس اصل کیفیت کو بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا بعینہ قول نقل فرما دیا۔ الشیخ الزانی، جو بوڑھا ہونے کے باوجود زنا کرے، میں لفظ شیخ سے یا تو اس کے اصل معنی یعنی بوڑھا ہی مراد ہے یا پھر کہا جائے کہ یہاں شیخ سے بکر (کنوارے) کی ضد محصن (شادی شدہ) مراد ہے خواہ وہ بوڑھا ہو یا جوان، جیسا کہ اس آیت منسوخ میں ہے۔ الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجمواہا البتۃ نکال من اللہ واللہ عزیز حکیم، شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت جب دونوں زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کردو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سزا ضروری ہے اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔ میں شیخ سے مراد شادی شدہ ہے خواہ وہ جوان ہو یا بوڑھا۔ تکبر کرنے والے فقیر کو بھی اللہ کے نزدیک مبغوض قرار دیا گیا ہے لیکن فقیر کا وہ تکبر مستثنی ہے جو کسی متکبر کے ساتھ ہو بلکہ ایسے تکبر کو تو صدقہ قرار دیا گیا ہے یعنی اگر کوئی فقیر کسی متکبر کے ساتھ تکبر کرے تو وہ اللہ کے نزدیک مبغوض نہیں ہوگا۔ بلکہ اسے صدقہ کا ثواب ملے گا، چناچہ حضرت بشیر بن حارث کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خواب میں دیکھا تو ان سے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین مجھے کوئی نصیحت فرمائیے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا مالداروں کو ثواب الٰہی کے حصول کی خاطر فقیروں سے مہربانی کا معاملہ کرنا بہت ہی بہتر ہے اور فقیروں کو اللہ پر توکل اور اعتماد کے جذبے سے مالداروں سے تکبر کا معاملہ کرنا بہت بہتر ہے۔ جن بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا اگرچہ وہ سب ہی کے حق میں بری ہیں لیکن ان تینوں کے حق میں چونکہ بہت ہی زیادہ بری ہیں جس کا سبب ظاہر ہے اس لئے یہ اللہ کے دشمن قرار دئیے گئے ہیں۔
Top