مشکوٰۃ المصابیح - صدقہ کی فضیلت کا بیان - حدیث نمبر 1898
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما من مسلم يغرس غرسا أو يزرع زرعا فيأكل منه إنسان أو طير أو بهيمة إلا كانت له صدقة
کھیتی کا نقصان اور اس پر ثواب
حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیت بوتا ہے اور پھر انسان یا پرند اور چرند مالک کی مرضی کے بغیر اس میں سے کچھ کھاتے ہیں تو یہ نقصان مالک کے لئے صدقہ ہوجاتا ہے۔ (بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں حضرت جابر ؓ سے منقول ہے یہ الفاظ بھی ہیں کہ اور اس میں سے جو کچھ چوری ہوجاتا ہے وہ مالک کے لئے صدقہ ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کے درخت کا پھل وغیرہ یا اس کی کھیتی میں سے اگر کوئی چرند پرند کسی بھی طرح یا کسی بھی سبب سے کچھ کھالیتے ہیں تو مالک کو وہی ثواب ملتا ہے جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خیرات کرنے کا ثواب ہوتا ہے گویا اس ارشاد گرامی کے ذریعے مالک کو نقصان مال پر تسلی دلائی جا رہی ہے کہ وہ ایسے موقع پر صبر کرے کیونکہ اس نقصان کے بدلے میں اسے بہت زیادہ ثواب ملتا ہے۔ ایک اشکال اور اس کا جواب اس موقع پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اعمال کا ثواب تو نیت پر موقوف ہے اور ظاہر ہے کہ صورت مذکورہ میں مالک کی طرف سے نیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پھر ثواب کیسے ملتا ہے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (رح) اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ کھیتی کا مقصود اصلی مطلقاً نوع انسانی و حیوانی کی حیات وبقاء ہے یعنی کاشتکار کسان جب کھیت میں بیج ڈالتا ہے۔ یا درخت کا کوئی پودا لگاتا ہے تو اس کے پیش نظر کسی فرد کی تخصیص کے بغیر مطلقاً نوع انسانی و حیوانی کی ضروریات زندگی کی تکمیل کی نیت ہوتی ہے۔ اب اس کھیت یا درخت سے انسان و حیوان کا جو فرد بھی فائدہ اٹھائے گا خواہ وہ ناجائز طریقہ سے فائدہ اٹھایا جائز طریقے سے اس کی اجمالی نیت کا تعلق اس سے ہوگا، یہ الگ بات ہے کہ جو شخص ناجائز طریقے سے فائدہ اٹھائے گا وہ اپنے جرم کی سزا پائے گا۔ مگر مالک کے حق میں اس کی اجمالی نیت کافی ہوجائے گی کیونکہ حصول ثواب کے لئے اجمالی نیت کافی ہے اس کے مالک کو نقصان کے بدلے میں صدقہ کا ثواب مل جائے گا۔
Top