مشکوٰۃ المصابیح - صدقہ کی فضیلت کا بیان - حدیث نمبر 1889
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أصبح منكم اليوم صائما ؟ قال أبو بكر : أنا قال : فن تبع منكم اليوم جنازة ؟ قال أبو بكر : أنا . قال : فمن أطعم منكم اليوم مسكينا ؟ قال أبو بكر : أنا . قال : فمن عاد منكم اليوم مريضا ؟ . قال أبو بكر : أنا . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما اجتمعن في امرئ إلا دخل الجنة . رواه مسلم
حضرت ابوبکر ؓ کا مرتبہ عبودیت
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ ایک دن صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ آج تم میں کون شخص روزہ سے ہے؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ میں روزے سے ہوں آپ ﷺ نے فرمایا آج تم میں سے کون شخص جنازہ کے ساتھ نماز جنازہ کے لئے گیا ہے؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ میں۔ آپ ﷺ نے فرمایا آج تم میں سے کس شخص نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ میں نے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آج تم میں سے کس شخص نے بیمار کی عیادت کی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ میں نے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سن لو! جس شخص میں یہ ساری باتیں جمع ہوتی ہیں وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ہی دن روزہ بھی رکھے نماز جنازہ میں بھی شریک ہوا اور جنازہ کے ساتھ قبرستان جا کے کسی مسکین کو کھانا بھی کھلائے اور کسی بیمار کی عیادت کرنے بھی جائے تو ایسا شخص جنت میں داخل ہوگا اس طرح جنت میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بغیر حساب کے جنت میں جائے گا۔ کیونکہ ویسے تو مطلقاً دخول جنت کے لئے صرف ایمان ہی کافی ہے یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جس دروازے سے چاہے گا جنت میں جائے گا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر انا (میں) کہنا اور حصول ثواب کی غرض نیز اپنے احوال کی خبر دینے کے طور پر اپنی فضیلت بیان کرنا منع نہیں ہے چناچہ بعض صوفیہ اور مشائخ نے جو سالکین کو منع کیا ہے کہ اپنی زبان پر انا جاری نہ کیا جائے تو اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ بقصد تکبر اور دعویٰ ہستی و انانیت کے طور پر انا کہا جائے جیسا کہ ابلیس ملعون نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کے حکم کے وقت از راہ غرور وتکبر اور بطور انانیت کہا تھا کہ انا خیر منہ
Top