مشکوٰۃ المصابیح - خرچ کرنے کی فضیلت اور بخل کی کراہت کا بیان - حدیث نمبر 1880
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : كان لرسول الله صلى الله عليه و سلم عندي في مرضه ستة دنانير أو سبعة فأمرني رسول الله صلى الله عليه و سلم أن أفرقها فشغلني وجع نبي الله صلى الله عليه و سلم ثم سألني عنها : ما فعلت الستة أو السبعة ؟ قلت : لا والله لقد كان شغلني وجعك فدعا بها ثم وضعها في كفه فقال : ما ظن نبي الله لو لقي الله عز و جل وهذه عنده ؟ . رواه أحمد
نبی اپنے پیچھے مال نہیں چھوڑتا
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی بیماری کے دوران میرے پاس آپ ﷺ کی (عرب میں اس وقت رائج) چھ یا سات اشرفیاں تھیں لہٰذا آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں انہیں تقسیم کر دوں لیکن آپ ﷺ کی بیماری نے ان کو تقسیم کرنے سے باز رکھا۔ (یعنی آپ ﷺ کی بیماری کی وجہ سے مجھے ان کو تقسیم کرنے کی مہلت ہی نہیں ملی) چناچہ مجھ سے آنحضرت ﷺ نے پھر دریافت فرمایا کہ ان چھ یا سات اشرفیوں کا کیا ہوا؟ حضرت عائشہ ؓ (کہتی ہیں کہ) میں نے عرض کیا کہ میں انہیں ابھی تقسیم نہیں کیا ہے۔ اللہ کی قسم آپ کی بیماری نے مجھے اسے تقسیم کرنے سے باز رکھا ہے یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے ان اشرفیوں کو منگوایا اور انہیں اپنے اپنے ہاتھوں پر رکھ کر فرمایا کہ کیا یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کا نبی اللہ عز وجل سے اس حال میں ملاقات کرے کہ یہ اشرفیاں اس کے پاس ہوں۔ (احمد)

تشریح
حدیث کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات مقام نبوت کے منافی ہے کہ اللہ کا نبی جب اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی سے ملے تو اس کے گھر میں موجود مال و زر موجود ہو آپ ﷺ نے اس انداز سے حضرت عائشہ ؓ کو تنبیہ فرمائی کہ ان اشرفیوں کا گھر میں پڑے رہنا مجھے قطعی پسند نہیں ہے انہیں فورا تقسیم کردو۔
Top