مشکوٰۃ المصابیح - خرچ کرنے کی فضیلت اور بخل کی کراہت کا بیان - حدیث نمبر 1878
وعن أبي ذر أنه استأذن على عثمان فأذن له وبيده عصاه فقال عثمان : يا كعب إن عبد الرحمن توفي وترك مالا فما ترى فيه ؟ فقال : إن كان يصل فيه حق الله فلا بأس عليه . فرفع أبو ذر عصاه فضرب كعبا وقال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : ما أحب لو أن لي هذا الجبل ذهبا أنفقه ويتقبل مني أذر خلفي منه ست أواقي . أنشدك بالله يا عثمان أسمعته ؟ ثلاث مرات . قال : نعم . رواه أحمد
مال وزر کے بارے میں حضرت ابوذر کا مسلک اور ان کا جذبہ زہد
حضرت ابوذر غفاری ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے حضرت عثمان غنی ؓ سے حاضری کی اجازت چاہی تو حضرت عثمان ؓ نے انہیں اجازت دی جب وہ حاضر ہوئے تو اس وقت ان کے ہاتھ میں عصا تھا اسی موقع پر حضرت عثمان ؓ نے حضرت کعب ؓ سے جو اس وقت وہاں موجود تھے فرمایا کہ کعب! کیا حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کا انتقال ہوگیا اور انہوں نے اپنے پیچھے بہت زیادہ مال چھوڑا ہے آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ آیا ان کے مال کی بےانتہا کثرت و زیادتی ان کے کمال ایمان کے لئے مضرت تھی یا نہیں؟ حضرت کعب ؓ نے کہا کہ اگر حضرت عبدالرحمن ؓ اس مال میں سے اللہ تعالیٰ کا حق یعنی زکوٰۃ صدقات وغیرہ ادا کرتے تھے تو ان کے بارے میں کسی خوف کی گنجائش نہیں یہ سنتے ہی حضرت ابوذر ؓ نے اپنا عصا اٹھا کر حضرت کعب کو مارا اور کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر میرے پاس سونے کا یہ پہاڑ احد ہو اور میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں تو باوجودیکہ وہ مقبول بھی ہوجائے میں اسے پسند نہیں کروں گا کہ میں اس چھ اوقیہ یعنی دو سو چالیس درہم بھی اپنے پیچے چھوڑ جاؤں۔ پھر حضرت ابوذر ؓ نے حضرت عثمان ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ عثمان ؓ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم نے یہ ارشاد گرامی نہیں سنا ہے؟ حضرت ابوذر ؓ نے یہ تین مرتبہ فرمایا حضرت عثمان ؓ نے فرمایا کہ ہاں میں نے بھی یہ ارشاد گرامی سنا ہے۔ (احمد)

تشریح
حضرت ابوذر غفاری ؓ صحابہ کی ایک جماعت میں سے تھے جس کا فقر و زہد امیتازی شان رکھتا تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ حضرت ابوذر غفاری ؓ کی ذات گرامی فقر و زہد اور استغنا کے بارے میں پوری امت میں ایک مثالی حیثیت رکھتی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کا یہ رجحان و نظریہ تھا کہ اپنے پاس مال و زر کا ادنیٰ ترین حصہ بھی جمع نہ کیا جائے بلکہ جو کچھ بھی اپنے قبضے وقدرت میں آئے سب اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جائے چناچہ اس موقع پر بھی ان کا یہ جذبہ ان پر غالب آگیا اور جب انہوں نے حضرت کعب ؓ سے اپنے مزاج اور رجحان کے خلاف بات سنی تو انہیں مار بیٹھے۔ اس بارے میں جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے وہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ جمہور علماء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر مال کی زکوٰۃ ادا ہوتی ہے تو اس کو جمع کرنے میں مضائقہ نہیں ہے خواہ وہ مال کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی میں جملہ و یتقبل منی بطور مبالغہ استعمال فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اتنا زیادہ مال و زر اللہ کی راہ میں خرچ کروں اس کے باوجود بھی کاش کہ قبول ہوجائے۔ لفظ اذر حذف ان کے ساتھ احب کا مفعول ہے گویا اس پورے جملے کے معنییہ ہوں گے کہ اگر اللہ اتنا زیادہ مال عطا فرما دے اور میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردو اور پھر وہ بارگاہ الوہیت میں قبول بھی ہوجائے تو جب بھی میں یہ گوارا نہیں کروں گا کہ اس مال میں سے کم از کم چھ اوقیہ ہی اپنے پیچھے چھوڑ جاؤں۔
Top