مشکوٰۃ المصابیح - خرچ کرنے کی فضیلت اور بخل کی کراہت کا بیان - حدیث نمبر 1860
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : مثل البخيل والمتصدق كمثل رجلين عليهما جنتان من حديد قد اضطرت أيديهما إلى ثديهما وتراقيهما فجعل المتصدق كلما تصدق بصدقة انبسطت عنه البخيل كلما هم بصدقة قلصت وأخذت كل حلقة بمكانها
صدقہ دینے والے اور بخیل کی مثال
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی ہے جن کے جسم پر لوہے کی زرہیں اور ان زرہوں کے تنگ ہونے کی وجہ سے ان دونوں کے ہاتھ ان کی چھاتیوں اور گردن کی ہنسلی کی طرف چمٹے ہوئے ہوں چناچہ جب صدقہ دینے کا قصد کرتا ہے تو اس کی زرہ کھل جاتی ہے اور جب بخیل صدقہ دینے کا قصد کرتا ہے تو اس کی زرہ کے حلقے اور تنگ ہوجاتے ہیں اور اپنی جگہ پر ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ سخی انسان جب اللہ کی خوشنودی کے لئے اپنا مال خرچ کرنے کا قصد کرتا ہے تو اس جذبہ صدق کی بنا پر اس کا سینہ کشادہ ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ اس کے قلب و احساسات کے تابع ہوتے ہیں بایں طور کہ وہ مال خرچ کرنے کے لئے دراز ہوتے ہیں اس کے برخلاف ایسے مواقع پر بخیل انسان کا سینہ تنگ ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ سمٹ جاتے ہیں۔ اس مثال کا حاصل یہ ہے کہ جب سخی انسان خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو توفیق الٰہی اس کے شامل حال ہوتی ہے بایں طور کہ اس کے لئے خیر و بھلائی اور نیکی کا راستہ آسان کردیا جاتا ہے اور بخیل کے لئے نیکی و بھلائی کا راستہ دشوار گزار ہوجاتا ہے۔
Top