مشکوٰۃ المصابیح - جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1852
وعن عمر رضي الله عنه قال : تعلمن أيها الناس أن الطمع فقر وأن الإياس غنى وأن المرء إذا يئس عن شيء استغنى عنه . رواه رزين
طمع افلاس اور محتاجگی ہے
حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! جان لو کہ طمع محتاجگی ہے اور آدمیوں سے ناامید ہونا تونگری و بےپروائی ہے، انسان جب کسی چیز سے مایوس ہوجاتا ہے تو اس سے بےپرواہ ہوجاتا ہے۔ (رزین)

تشریح
طمع محتاجگی ہے کا مطلب یہ ہے کہ طمع محتاجگی کی ایک صورت ہے یا یہ مطلب ہے کہ طمع محتاجگی کا ذریعہ ہے یعنی طمع کی وجہ سے انسان محتاج بنتا ہے بایں طور کہ اپنی طمع پوری کرنے کے لئے دوسرے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ ناامید ہونا تونگری و بےپروائی ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے نا امیدی مستغنی اور بےپرواہ بنا دیتی ہے حضرت ابوالحسن شاذلی (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے کسی نے علم کیمیا جو صرف دو لفظوں میں منحصر ہو طلب کیا تو انہوں نے اس سے فرمایا کہ مخلوق اللہ سے صرف نظر کرو یعنی کسی انسان سے امیدیں قائم نہ کرو اور اللہ سے اس چیز کے بارے میں اپنی طمع منقطع کرلو جو تمہاری قسمت میں لکھی ہوئی چیزوں کے علاوہ ہے یعنی اللہ نے جو چیزیں تمہارے مقدر میں لکھ دی ہیں اس کے علاوہ دوسری چیزوں کی امید نہ رکھو۔ طمع کے معنی ہیں اس چیز پر نظر رکھنا یعنی اسے حاصل کرنے کی خواہش کرنا کہ جس کے حاصل ہونے میں شک ہو یعنی کسی چیز کے بارے میں یہ خیال ہو کہ اس کا مالک دے گا یا نہیں ہاں اگر کسی ایسی چیز کی کسی ایسے شخص سے حصول کی خواہش ہو جس پر اس کا ہو اس شخص سے کمال تعلق اور محبت و مروت کی بنا پر یقین ہو کہ وہ چیز مل جائے گی تو اسے طمع نہیں کہیں گے۔
Top