مشکوٰۃ المصابیح - جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1849
عن ابن الفراسي أن الفراسي قال : قلت لرسول الله صلى الله عليه و سلم أسأل يا رسول الله ؟ فقال النبي صلى الله عليه و سلم : لا وإن كنت لابد فسل الصالحين . رواه أبو داود والنسائي
اگر ضرورت ہی ہو تو نیک بختوں سے سولا کرو
حضرت ابن فراسی (رح) کہتے ہیں کہ میرے والد مکرم حضرت فراسی ؓ نے کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا میں لوگوں سے مانگ سکتا ہوں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہر حالت میں خد اہی پر بھروسہ رکھو ہاں اگر کسی شدید ضرورت اور سخت حاجت کی وجہ سے مانگنا ضروری ہے تو پھر نیک بختوں سے مانگو۔ ( ابوداؤد، نسائی)

تشریح
ضرورت و حاجت کے وقت نیک بختوں سے مانگنے کے لئے اس لئے فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے پاس حلال مال ہوتا ہے وہ بردبار اور مہربان ہوتے ہیں مانگنے والوں کی پردہ دری نہیں کرتے اور ان کے ناموں کو اچھالتے نہیں یہی وجہ ہے کہ بغداد کے فقراء و مساکین اپنی ضرورت و احتیاج کے وقت حضرت امام احمد بن حنبل ہی کے دروازے پر جاتے تھے اور ان سے اپنی ضرورت و حاجت بیان کرتے تھے۔ حضرت امام موصوف (رح) کے تقویٰ و احتیاط کا کیا عالم تھا؟ اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے گھر والوں کو خمیر کی ضرورت ہوئی جسے انہوں نے حضرت امام احمد کے صاحبزادے ہی کے گھر سے منگوا لیا، حضرت امام احمد کے صاحبزادے قاضی کے عہدہ پر فائز تھے اور ان کی سعادت و بھلائی کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے گھر کے دروازے ہی کے پاس سوتے تھے تاکہ کوئی محتاج و ضرورت مند واپس نہ ہوجائے بہرحال امام احمد کے گھر والوں نے اس خمیر سے روٹی پکائی اور جب حضرت امام موصوف کے سامنے کھانا آیا تو انہیں بذریعہ کشف روٹی کے بارے میں کوئی شبہ گزرا انہوں نے گھر والوں سے پوچھا تو انہوں نے صورتحال بتائی، حضرت امام موصوف نے کھانا کھانے سے انکار کردیا ان کی وجہ سے گھر والوں نے بھی نہیں کھایا اور پوچھا کہ یہ کھانا فقراء کو دے دیا جائے، انہوں نے فرمایا کہ دے دو مگر اس شرط کے ساتھ کہ انہیں بھی صورتحال سے مطلع کردینا چناچہ فقراء نے بھی اسے لینے سے انکار کردیا آخرکار گھر والوں نے پورے گھر کا کھانا امام موصوف کی اجازت کے بغیر ہی دریا میں ڈال دیا۔
Top