مشکوٰۃ المصابیح - جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1842
عن سمرة بن جندب قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : المسائل كدوح يكدح بها الرجل وجهه فمن شاء أبقى على وجهه ومن شاء تركه إلا أن يسأل الرجل ذا سلطان أو في أمر لا يجد منه بدا . رواه أبو داود والترمذي والنسائي
ایک سبق آموز واقعہ :
حضرت سمرہ بن جندب ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سوال کرنا ایک زخم ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا منہ زخمی کرتا ہے بایں طور کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اپنی عزت و آبرو کو خاک میں ملاتا ہے کہ یہ اپنے منہ کو زخمی کرنے ہی کے مترادف ہے لہٰذا جو شخص اپنی عزت و آبرو باقی رکھنا چاہے کہ وہ سوال سے شرم کرے اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلا کر اپنی عزت و آبرو کو باقی رکھے اور کوئی شخص اپنی آبرو کو باقی رکھنا ہی نہیں چاہتا تو وہ لوگوں کے ہاتھ پھیلا کر اپنی عزت خاک میں ملا لے یعنی اسے باقی نہ رکھے یہ گویا سوال کرنے والے کے لئے تہدید اور تنبیہ ہے کہ کسی سے سوال نہ کرنا چاہئے۔ ہاں اگر سوال ہی کرنا ہے تو پھر حاکم سے سوال کرے یا ایسی صورت میں سوال کرے کہ اس کے لئے کوئی واقعی ضرورت اور مجبوری ہو۔ ( ابوداؤد، نسائی، ترمذی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر تم سوال ہی کرو تو کم سے کم ایسے شخص سے تو کرو جس پر تمہارا حق بھی ہے اور وہ حاکم یا بادشاہ ہے کہ جس کے تصرف میں بیت المال اور خزانہ ہو تم ان سے اپنا حق مانگو، اگر تم مستحق ہوگے وہ تمہیں بیت المال سے دیں گے۔ عطاء سلطانی کو قبول کرنے کا مسئلہ علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آیا عطاء سلطانی بادشاہ و حاکم کا عطیہ قبول کرنا جائز ہے یا نہیں؟ چناچہ اس بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ اگر بیت المال اور خزانے میں حرام مال زیادہ ہو تو اس میں سے کچھ مانگنا یا اس سے عطیہ سلطانی قبول کرنا حرام ہے اور اگر ایسی صورت نہ ہو تو پھر حلال ہے۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی واقعی مجبوری اور ضرورت ہو کہ کسی سے مانگے بغیر چارہ کار نہ ہو مثلا کسی کا ضامن بن گیا ہو، طوفان و سیلاب کی وجہ سے کھیتی باڑی تباہ ہوگئی ہو یا کسی حادثے و مصیبت کی وجہ سے نوبت فاقوں تک پہنچ گئی تو ایسی صورتوں میں سوال کرنے کی اجازت ہے بلکہ اگر کوئی شخص حالت اضطراری کو پہنچ گیا ہو خواہ وہ اضطراری حالت کپڑے کی طرف سے ہو کہ ستر چھپانے کو کپڑا نہ ہو یا کھانے کی طرف سے ہو کہ شدت بھوک سے جان نکلی جاتی ہو تو پھر ایسی صورت میں کسی سے مانگ کر اپنی اضطراری حالت کو دور کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ اسی طرح اس شخص کے لئے بھی سوال کرنا واجب ہوتا ہے جو حج کی استطاعت رکھتا تھا مگر حج نہیں کیا یہاں تک کہ مفلس ہوگیا تو اب اسے چاہئے کہ وہ لوگوں سے سفر خرچ مانگ کر حج کے لئے جائے
Top