مشکوٰۃ المصابیح - جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1840
وعن عمر بن الخطاب قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم يعطيني العطاء فأقول : أعطه أفقر إليه مني . فقال : خذه فتموله وتصدق به فما جاءك من هذا المال وأنت غير مشرف ولا سائل فخذه . ومالا فلا تتبعه نفسك
جو چیز بغیر طمع وحرص کے ملے اسے قبول کرنا چاہئے
حضرت عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ مجھے زکوٰۃ وصول کرنے کی اجرت عطا فرماتے تو میں عرض کرتا کہ یہ اس شخص کو دے دیجئے جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو۔ آپ ﷺ اس کے جواب میں فرماتے کہ اگر تمہیں حاجت و ضرورت ہو تو اسے لے کر اپنے مال میں شامل کرلو اور اگر حاجت و ضرورت سے زیادہ ہو تو خود اللہ کی راہ میں خیرات کردو نیز یہ بھی فرماتے کہ جو چیز تمہیں بغیر طمع و حرص کے اور بغیر مانگے حاصل ہو اسے قبول کرلو اور جو چیز اس طرح یعنی بغیر طمع و حرص اور بغیر سوال کے ہاتھ نہ لگے تو اس کے پیچھے مت پڑو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کہ جو چیز بغیر طمع و حرص اور بغیر مانگے حاصل نہ ہو اس کو حاصل کرنے کے لئے طمع نہ کرو اور نہ اس کے لئے منتظر رہو جیسا کہ کہہ دیا جاتا ہے کہ لارد ولا کد۔ ایک دوسری حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز بغیر طمع و حرص کے حاصل ہو اور وہ اسے واپس کر دے تو گویا اس نے اس چیز کو اللہ کو واپس کردیا یعنی اللہ کی ایک نعمت کو ٹھکرا دیا۔
Top