مشکوٰۃ المصابیح - جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1839
وعن أبي سعيد الخدري قال : إن أناسا من الأنصار سألوا رسول الله صلى الله عليه و سلم فأعطاهم ثم سألوه فأعطاهم حتى نفد ما عنده . فقال : ما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم ومن يستعف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله ومن يتصبر يصبره الله وما أعطي أحد عطاء هو خير وأوسع من الصبر
سوال نہ کرنے کی فضیلت
حضرت ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن انصار میں سے چند لوگوں نے رسول کریم ﷺ سے کچھ مانگا، آپ ﷺ نے انہیں عطا فرما دیا۔ انہوں نے پھر مانگا تو آپ ﷺ نے جب بھی دے دیا یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہوگیا، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جو کچھ بھی مال ہوگا میں تم سے بچا کر اس کا ذخیر نہیں کروں گا اور یاد رکھو کہ جو شخص لوگوں سے سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بری باتوں سے بچاتا ہے اور اسے لوگوں کا محتاج نہیں کرتا اس طرح اس کی خود داری کو باقی رکھتا ہے، نیز جو شخص انتہائی معمولی چیز پر بھی قناعت کرتا ہے اور کسی سے سوال نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے قناعت آسان کردیتا ہے اور جو شخص بےپروائی ظاہر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بےپرواہ بنا دیتا ہے یعنی جو شخص دوسروں کے مال و زر سے بےپرواہ ہوتا ہے اور ہاتھ پھیلانے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کردیتا ہے اور جو شخص صبر کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صبر عطا فرماتا ہے یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے صبر کی توفیق طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے صبر آسان کردیتا ہے اور یاد رکھو کہ صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی دوسری چیز عطا نہیں کی گئی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام عطا و بخشش میں صبر سب سے بہتر عطاء ہے۔ (بخاری ومسلم)
Top