مشکوٰۃ المصابیح - جن لوگوں کو زکوۃ کا مال لینا اور کھانا حلال نہیں ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1828
وعن عطاء بن يسار مرسلا قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تحل الصدقة لغني إلا لخمسة : لغاز في سبيل الله أو لعامل عليها أو لغارم أو لرجل اشتراها بماله أو لرجل كان له جار مسكين فتصدق على المسكين فأهدى المسكين للغني . رواه مالك وأبو داود
بعض صورتوں میں غنی کے لئے بھی زکوٰۃ کا مال حلال ہوتا ہے
حضرت عطاء بن یسار ؓ بطریق ارسال روایت کرتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ غنی کے لئے زکوٰۃ کا مال حلال نہیں ہاں پانچ صورتوں میں غنی کے لئے بھی زکوٰۃ کا مال حلال ہوتا ہے (١) اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے غنی کے لئے جب کہ اس کے پاس سامان جہاد نہ ہو۔ (٢) زکوٰۃ وصول کرنے والے غنی کے لئے (٣) تاوان بھرنے والے غنی کے لئے (٤) زکوٰۃ کا مال اپنے مال کے بدلے میں خریدنے والے غنی کے لئے یعنی کسی شخص نے ایک مفلس کو زکوٰۃ کا کوئی مال دیا اور غنی اس مفلس سے زکوٰۃ کے مال کو خریدے اور اسے اس کا بدل دے دے تو اس صورت میں غنی کے لئے وہ مال جائز و حلال ہوگا۔ (٥) اور اس غنی کے لئے کہ جس کے پڑوس میں کوئی مفلس رہتا ہو اور کسی شخص نے اسے زکوٰۃ کا کوئی مال دیا اور وہ مفلس اپنے پڑوسی مال دار غنی کو اس میں سے کچھ حصہ تحفہ کے طور پر بھیجے تو وہ غنی کے لئے جائز و حلال ہوگا۔ (مالک، ابوداؤد، ) اور ابوداؤد کی ایک روایت جو ابوسعید ؓ سے منقول ہے لفظ او ابن السبیل (یعنی اس غنی کے لئے بھی کہ جو مسافر ہو زکوٰۃ کا مال حلال ہے مذکور ہے۔

تشریح
تاوان بھرنے والے غنی سے وہ مال دار اور غنی مراد ہے جسے کسی تاوان و جرمانے کے طور پر ایک بڑی رقم یا کسی مال ایک بڑا حصہ ادا کرنا ہے اگرچہ وہ مالدار ہے مگر اس کے ذمہ تاوان اور جرمانے کی جو رقم یا جو مال ہے وہ اس کے موجودہ مال و رقم سے بھی زیادہ ہے تو اس کے لئے جائز اور حلال ہے کہ وہ زکوٰۃ لے کر اس سے وہ تاوان پورا کرے اب وہ تاوان خواہ دیت کی صورت میں یا یہ شکل ہو کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا قرضدار تھا اس نے طرفین کو لڑائی جھگڑے سے بچانے کے لئے یا کسی اور وجہ سے اس شخص کا قرض اپنے ذمہ لے لیا کہ اس کی طرف سے اس کا قرض میں ادا کروں گا اس کی وجہ سے وہ قرض دار ہوگیا یا پھر یہ شکل بھی مراد ہوسکتی ہے کہ وہ خود کسی کا قرض دار ہو اپنا قرض ادا کرنے کے لئے اسے رقم و مال کی ضرورت ہو امام شافعی کے مسلک کے مطابق وہ غازی جہاد کرنے والا جو غنی اور مالدار ہو زکوٰۃ لے سکتا ہے اور اسے زکوٰۃ لینی درست ہے۔ لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اسے زکوٰۃ دینی جائز نہیں ہے کیونکہ دوسری احادیث میں مطلقاً غنی کو زکوٰۃ دینے سے منع فرمایا گیا ہے کہ غنی کے لئے صدقات کا مال حلال نہیں ہے پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو جو حکم تحریر فرمایا تھا اس میں آپ نے مطلقاً یہی ارشاد فرمایا تھا کہ (جس قوم میں تم گئے ہو) اس قوم کے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کرو اسے ان کے فقراء و مساکین پر صرف کرو، چناچہ وہ حدیث کہ جس میں حضرت معاذ کے بارے میں مذکورہ حکم منقول ہے یہاں ذکر کی گئی حدیث سے زیادہ قوی ہے۔ ان کے علاوہ حدیث میں جو ذکر کی گئی ہیں وہ سب صورتیں متفقہ طور پر تمام ائمہ کے نزدیک درست ہیں کیونکہ زکوٰۃ وصول کرنے والے کو تو زکوٰۃ کا مال لینا اس لئے درست ہے کہ وہ اپنی محنت اور اپنے عمل کی اجرت لیتا ہے اس صورت میں اس کا فقر و غنا دونوں برابر ہیں۔ تاوان بھرنے والا اگرچہ غنی ہے لیکن اس پر جو قرض کا مطالبہ ہے وہ اس کے موجودہ مال سے زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا مال نہ ہونے کے برابر ہے اسی طرح باقی دونوں صورتوں کا معاملہ بھی ظاہر ہی ہے کہ زکوٰۃ جب مستحق زکوٰۃ کو مل گئی تو گویا وہ اپنے محل اور اپنے مصرف میں پہنچ گئی اور وہ مستحق زکوٰۃ اس مال کا مالک ہوگیا اب چاہے وہ اسے فروخت کر دے چاہے کسی کو تحفہ کے طور پردے دے۔
Top