مشکوٰۃ المصابیح - جن لوگوں کو زکوۃ کا مال لینا اور کھانا حلال نہیں ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1826
وعن عبد الله بن عمرو قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تحل الصدقة لغني ولا لذي مرة سوي . رواه الترمذي وأبو داود والدارمي
کن لوگوں کو زکوٰۃ کا مال لینا درست نہیں ہے؟
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ نہ تو غنی کے لئے زکوٰۃ کا مال لینا حلال ہے اور نہ تندرست و توانا کے لئے جو محنت مزدوری کرنے کے قابل ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد، دارمی اور احمد، نسائی و ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے۔

تشریح
غنی تین طرح کے ہوتے ہیں۔ اول تو وہ شخص جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے گویا وہ شخص نصاب نامی کا مالک ہو اور اس کے نصاب پر ایک سال گزر گیا ہو دوم وہ شخص جو مستحق زکوٰۃ نہیں ہوتا اور اس پر صدقہ فطر قربانی کرنا واجب ہوتا ہے گویا وہ شخص کہ جس کے پاس ضرورت اصلیہ کے علاوہ بقدر نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر مال ہو، سوم وہ شخص جس کے صدقہ کا مال تو حلال ہو لیکن اسے دست سوال دراز کرنا حرام ہو، گویا وہ شخص جو ایک دن کے کھانے اور بقدر ستر پوشی کپڑے کا مالک ہو۔ تندرست و توانا کا مطلب یہ ہے کہ کہ جس طرح غنی کے لئے زکوٰۃ کا مال حلال نہیں ہے اسی طرح اس شخص کے لے زکوٰۃ حلال و جائز نہیں ہے جو تندرست و توانا ہو یعنی اس کے اعضاء صحیح وسالم اور قوی ہوں نیز وہ اتنا کمانے پر قادر ہو کہ اس کے ذریعے اپنا اور اہل و عیال کا پیٹ پال سکے چناچہ حضرت امام شافعی کا مسلک اسی حدیث کے مطابق ہے کہ ان کے نزدیک کسی ایسے شخص کے لئے زکوٰۃ کا مال لینا حلال نہیں ہے جو کمانے کے قابل ہو لیکن حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ ہر اس شخص کو زکوٰۃ لینی حلال ہے جو نصاب مزکورہ کا مالک نہ وہ اگرچہ وہ تندرست و توانا اور کمانے کے قابل ہی کیوں نہ ہو کیونکہ آنحضرت ﷺ ان ضرورت مند صحابہ ؓ کو صدقات و زکوٰۃ کا مال دیتے تھے جو توانا و تندرست بھی تھے اور کمانے قابل بھی تھے اور آخر تک آپ ﷺ کا یہی معمول رہا لہٰذا اس حدیث کے بارے میں کہا جائے گا یا تو یہ منسوخ ہے یا پھر یہ کہ اس حدیث کی مراد یہ ظاہر کرنا ہے کہ جو شخص تندرست و توانا ہو اور محنت مزدوری کر کے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اس باب معیشت فراہم کرنے کی قدرت و طاقت رکھتا ہو اس کے لئے یہ بہتر اور مناسب نہیں ہے کہ وہ زکوٰۃ و صدقات کا مال لے کر اس ذلت و کمتری پر مطمئن و راضی ہو اور معاشرے کا ایک ناکارہ شخص بن جائے بلکہ اس کے لئے تو بہتر اور اولیٰ یہ ہے کہ وہ اپنے بازوؤں کے سہارے خود کمائے محنت کرے اور اس طرح سماج و سوسائٹی میں باوقار زندگی بسر کرے۔
Top