مشکوٰۃ المصابیح - جن لوگوں کو زکوۃ کا مال لینا اور کھانا حلال نہیں ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1821
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : كان في بريرة ثلاث سنن : إحدى السنن أنها عتقت فخيرت في زوجها وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الولاء لمن أعتق . ودخل رسول الله صلى الله عليه و سلم والبرمة تفور بلحم فقرب إليه خبز وأدم من أدم البيت فقال : ألم أر برمة فيها لحم ؟ قالوا : بلى ولكن ذلك لحم تصدق به على بريرة وأنت لا تأكل الصدقة قال : هو عليها صدقة ولنا هدية
تملیک کا مسئلہ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ بریرہ کے متعلق تین احکام سامنے آئے پہلا حکم تو یہ کہ جب وہ آزاد ہوئی تو اسے اپنے خاوند کے بارے میں اختیار دیا گیا (دوسرا حکم یہ کہ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میراث کا حق اس شخص کے لئے ہے جس نے آزاد کیا (تیسرا حکم یہ کہ ایک دن) رسول کریم ﷺ گھر میں تشریف لائے تو گوشت کی ہانڈی پک رہی تھی، آپ ﷺ کے سامنے روٹی اور گھر کا سالن لایا گیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں نے وہ ہانڈی نہیں دیکھی جس میں گوشت ہے؟ یعنی جب گوشت پک رہا ہے تو وہ مجھے کیوں نہیں دیا گیا؟ عرض کیا گیا کہ بیشک ہانڈی میں گوشت پک رہا ہے لیکن وہ گوشت بریرہ کو بطور صدقہ دیا گیا ہے اور آپ ﷺ تو صدقہ نہیں کھاتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ گوشت بریرہ کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حدیث کے ابتدائی الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ بریرہ جو حضرت عائشہ ؓ کی آزاد کردہ لونڈی تھیں اس کے سبب تین شرعی احکام نافذ ہوئے پہلا حکم تو یہ کہ جب بریرہ آزاد ہوئی تو اسے اختیار دے دیا گیا کہ چاہے تو وہ اپنے خاوند کہ جس کا نام مغیث تھا کے نکاح میں رہے یا اس سے جدائی اور علیحدگی اختیار کرلے۔ یہ علماء کے یہاں خیار عتق کہلاتا ہے یعنی جو لونڈی کسی کے نکاح میں ہو تو آزاد ہونے کے بعد اسے اختیار ہے کہ چاہے تو خاوند کے نکاح میں رہے چاہے اس سے جدائی اختیار کرلے لیکن حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ لونڈی کو یہ اختیار اس وقت حاصل ہوگا جب کہ اس کا خاوند غلام ہو حنفیہ کہتے ہیں کہ اس کا خاوند خواہ غلام ہو خواہ آزاد ہو وہ دونوں صورتوں میں مختار ہوگی۔ بریرہ کا خاوند مغیث غلام تھا جب بریرہ نے آزاد ہونے کے بعد اس سے جدائی اختیار کرلی گویا اسے قبول نہیں کیا تو مغیث بڑا ہی پریشان ہوا یہاں تک کہ وہ بریرہ کے عشق و فراق میں روتا اور فریاد کرتا پھرتا رہا مگر بریرہ نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا اور اس سے علیحدہ ہی رہی۔ بریرہ کے سبب سے دوسرا حکم یہ نافذ ہوا کہ ولاء یعنی لونڈی کی میراث اس شخص کے لئے ہے جس نے اسے آزاد کیا ہوگا اس کی تفصیل یہ ہے کہ بریرہ ایک یہودی کی لونڈی تھی جس نے اسے مکاتب کردیا تھا یعنی یہودی نے اسے یہ کہہ دیا تھا کہ جب تو اتنے درہم دے دے گی تو آزاد ہوجائے گی جب بریرہ مطلوبہ تعداد میں درہم فراہم کرنے سے عاجز ہوگئی تو حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضرت ہوئی تاکہ اگر وہ کچھ دے دیں تو اپنے مالک کو دے کر آزادی کا خلعت زیب تن کرے، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اپنے مالک سے پوچھ اگر وہ تجھے بیچے تو میں خریدے لیتی ہوں۔ بریرہ اپنے مالک کے پاس گئی اور اس سے حضرت عائشہ ؓ کی خواہش بیان کی وہ فروخت کرنے پر تیار ہوگیا مگر اس نے یہ بھی کہا کہ میں اس شرط پر فروخت کرنے کے لئے تیار ہوں کہ ولاء یعنی بریرہ کی میراث کے ہم حقدار ہوں گے حضرت عائشہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ یہودی اس طرح کہتے ہیں اور ان کی یہ شرط ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہودی غلط کہتے ہیں اور بکو اس کرتے ہیں میراث کا حق اسی کو ہوتا ہے جو آزاد کرتا ہے عائشہ ؓ تم اس سے خرید کر آزاد کردو اس کی میراث تمہارے لئے ہوگی، یہودیوں کی یہ شرط باطل ہے۔ تیسرا حکم جو بریرہ کے سبب سے نافذ ہوا اس کا ذکر حدیث کے آخر میں کیا گیا ہے اس کا حاصل اور مطلب یہ ہے کہ اگر مستحق زکوٰۃ کو زکوٰۃ کا مال دیا جائے اور مستحق زکوٰۃ وہ مال لے کر ایسے شخص کو دے دے جو زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے تو اس کے لئے یہ مال حلال و جائز ہوگا کیونکہ زکوٰۃ دینے والے نے تو ایک صحیح شخص اور مستحق کو مال دے دیا اور وہ مال اس مستحق زکوٰۃ کی ملکیت ہوگا اب وہ جس شخص کو بھی اپنا مال دے گا جائز اور درست ہوگا اصطلاح میں اسے تملیک کہا جاتا ہے جو جائز اور حلال ہے۔
Top