مشکوٰۃ المصابیح - جن چیزوں میں زکوۃ واجب ہوتی ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1794
عن علي رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : قد عفوت عن الخيل والرقيق فهاتوا صدقة الرقة : من كل أربعين درهما درهم وليس في تسعين ومائة شيء فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم . رواه الترمذي وأبو داود وفي رواية لأبي داود عن الحارث عن علي قال زهير أحسبه عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه قال : هاتوا ربع العشر من كل أربعين درهما درهم وليس عليكم شيء حتى تتم مائتي درهم . فإذا كانت مائتي درهم ففيها خمسة دراهم . فما زاد فعلى حساب ذلك . وفي الغنم في كل أربعين شاة شاة إلى عشرين ومائة ز فإن زادت واحدة فشاتان إلى مائتين . فإن زادت فثلاث شياه إلى ثلاثمائة فإذا زادت على ثلاث مائة ففي كل مائة شاة . فإن لم تكن إلا تسع وثلاثون فليس عليك فيها شيء وفي البقر : في كل ثلاثين تبيع وفي الأربعين مسنة وليس على العوامل شيء
گائے اور بیل کی زکوۃ
حضر علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میں نے گھوڑوں اور غلاموں میں زکوٰۃ معاف رکھی ہے یعنی اگر غلام تجارت کے لئے نہ ہوں تو ان میں نہیں ہے اور گھوڑوں کی زکوٰۃ کے بارے میں ائمہ کا جو اختلاف ہے اسے بیان کیا جا چکا ہے تم چاندی کی زکوٰۃ ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم کے حساب سے ادا کرو جب کہ چاندی بقدر نصاب دو سو درہم ہو کیونکہ ایک سو نوے درہم یعنی دو سو درہم سے کم چاندی میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے جب دو سو درہم چاندی ہو تو اس میں سے پانچ درہم زکوٰۃ کے طور پر دینا واجب ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد) ابوداؤد نے حارث اعور سے حضرت علی ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ زہیر نے جو حارث سے روایت نقل کرتے ہیں کہا کہ میرا گمان ہے کہ حارث نے یہ کہا ہے کہ حضرت علی ؓ نے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ تم ہر سال ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم یعنی چالیسواں حصہ ادا کروں اور تم پر اس وقت تک کچھ واجب نہیں جب تک کہ تمہارے پاس دو سو درہم پورے نہ ہوں جب دو سو درہم پورے ہوں تو ان میں بطور زکوٰۃ پانچ درہم واجب ہوں گے اور جب دو سو درہم سے زائد ہوں گے تو ان میں اسی حساب سے زکوٰۃ واجب ہوگی اور بکریوں کا نصاب یہ ہے کہ ہر چالیس بکریوں میں ایک بکری واجب ہوتی ہے اور یہ ایک بکری ایک سو بیس تک کی تعداد کے لئے ہے اور جب اس تعداد سے ایک بکری بھی زائد ہوجائے تو دو سو تک دو بکریاں واجب ہوں گی اور جب دو سو سے ایک بکری بھی زائد ہوگی تو تین سو تک تین بکریاں واجب ہوں گی اور جب تین سو سے زائد ہوں یعنی چار سو ہوجائیں تو ہر سو بکریں میں ایک بکری واجب ہوگی ہوگی اور اگر تمہارے پاس بقدر نصاب بکریاں نہ ہوں یعنی انتالیس بکریاں ہوں تو پھر ان میں تمہارے ذمہ کچھ بھی واجب نہیں ہوگا اور گائے کا نصاب یہ ہے کہ ہر تیس میں ایک سال کی عمر کا ایک بیل اور چالیس میں دو سال کی عمر کی ایک گائے واجب ہے نیز کام کاج کے جانوروں میں کچھ بھی نہیں (یعنی زکوۃ) واجب نہیں۔

تشریح
فمازاد فعلی حساب ذالک (جب دو سو درہم سے زائد ہوں تو ان میں اس حساب سے زکوٰۃ واجب ہوگی) حنفیہ میں سے صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کا یہی مسلک ہے کہ دو سو درہم سے جو مقدار زائد ہوگی اس کا حسان کر کے چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ ادا کیا جائے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ دو دسو درہم سے زائد مقدار میں اسی وقت زکوٰۃ واجب ہوگی جب وہ مقدار چالیس درہم تک ہو اور اگر زائد مقدار چالیس تک نہ پہچے تو پھر اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی بلکہ دو سو درہم ہی کی زکوٰۃ دی جائے گی حضرت امام صاحب نے اس حدیث میں زائد مقدار کو چالیس درہم کی زائد مقدار پر محمول کیا ہے اور یہ انہوں نے اس لئے کہا ہے تاکہ احادیث میں تطبیق ہوجائے اور کوئی تعارض نظر نہ آئے۔ گائے کے نصاب میں زکوٰۃ کے طور پر بیل دینے کے لئے فرمایا گیا ہے چناچہ گائے کی زکوٰۃ کے طور پر نر اور مادہ دونوں برابر ہیں چاہے گائے دی جائے اور چاہے بیل دیدیا جائے جیسا کہ آگے آنے والی روایت میں اس کی وضاحت بھی ہے چناچہ گائے اور بکری کی زکوٰۃ کے طور پر مادہ ہی دینا ضروری نہیں ہے اونٹوں کے برخلاف کہ ان میں مادہ ہی دینا افضل ہے لیکن گائے اور بکری میں اس کی کوئی قید اور تخصیص نہیں ہے۔ علامہ ابن حجر نے فرمایا ہے کہ اگر گائے یا بیل چالیس سے زائد ہوں تو اس زائد مقدار میں اس وقت تک کوئی چیز واجب نہیں ہوتی جب تک کہ تعداد ساٹھ تک نہ پہنچ جائے جب تعداد ساٹھ ہوجائے گی تو ان میں دو تبیعے یعنی ایک ایک برس کے دو بیل یا اتنی ہی عمر کی دو گائیں دینی ہوں گی پھر اس کے بعد ہر چالیس میں ایک مسنہ اور یعنی دو برس کی گائے یا بیل دینا ہوگا اور ہر تیس میں ایک ایک تبیعہ واجب ہوگا مثلاً جب ستر ہوجائیں تو ایک مسنہ اور ایک تبیعہ، اسی ہوجائیں تو دو مسنہ نوے ہوجائیں تو تین تبیعے اور جب سو ہوجائیں تو دو تبیعے اور ایک مسنہ واجب ہوجائے گا۔ اسی طرح ہر تیس میں ایک تبیعہ اور ہر چالیس میں ایک مسنہ کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ علامہ ابن حجر کا قول اگر گائے یا بیل چالیس سے زائد مقدار میں اس وقت تک کوئی چیز واجب نہیں ہوتی جب تک کہ تعداد ساٹھ تک نہ پہنچ جائے حنفیہ میں سے صاحبین کا یہی مسلک ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ چالیس سے جو تعداد بھی زائدہ ہوگی اس کا بھی حساب کر کے زکوٰۃ ادا کی جائے گی تاکہ تعداد ساٹھ تک پہنچ جائے جب تعداد ساٹھ تک پہنچ جائے گی تو دو تبیعے واجب ہوجائیں گے باقی حساب مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق ہوگا۔ لہٰذا اگر چالیس سے ایک بھی گائے یا بیل زائد ہوگا تو مسنہ کا چالیسواں حصہ یا ایک تبیعہ کا تیسواں حصہ یعنی ان کی قیمت کا چالیسواں یا تیسواں حصہ دینا ضروری ہوگا اسی طرح جو مقدار بھی زائد ہوگی اس کا اسی کے مطابق حساب کی جائے گا حنفیہ میں صاحب ہدایہ اور ان کے متبعین کی رائے میں حضرت امام صاحب کا یہی قول معتبر ہے۔ حدیث کے آخر جملے ولیس علی العوامل چیز (کام کاج کے جانوروں میں کچھ بھی واجب نہیں ہے) کا مطلب یہ ہے کہ جو جانور کام کاج کے ہوں اور ضروریات میں استعمال ہوتے ہوں جیسے بیل ہل جوتنے یا کنویں سے پانی کھینچنے یا بار برداری کے کام لئے ہوں تو اگرچہ ان کی تعداد بقدر نصاب ہی کیوں نہ ہو لیکن ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ یہی حکم اونٹ وغیرہ کے بارے میں بھی ہے چناچہ حضرت امام اعظم حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے۔ لیکن حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ ایسے جانوروں میں بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔
Top