مشکوٰۃ المصابیح - میت پر رونے کا بیان - حدیث نمبر 1736
وعن ابن عباس قال : ماتت زينب بنت رسول الله صلى الله عليه و سلم فبكت النساء فجعل عمر يضربهن بسوطه فأخره رسول الله صلى الله عليه و سلم بيده وقال : مهلا يا عمر ثم قال : إياكن ونعيق الشيطان ثم قال : إنه مهما كان من العين ومن القلب فمن الله عز و جل ومن الرحمة وما كان من اليد ومن اللسان فمن الشيطان . رواه أحمد
نوحہ اور چلائے بغیر رونا ممنوع نہیں
اور حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب کا انتقال ہوا تو عورتیں رونے لگیں حضرت عمر (اس بات کو کب برداشت کرنے والے تھے وہ) اپنے کوڑے سے مارنے لگے، آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کو اپنے ہاتھوں الگ کیا اور فرمایا کہ عمر نرمی اختیار کرو۔ پھر عورتوں سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے آپ کو شیطان کی آواز سے دور رکھو (یعنی چلا چلا کر اور بیان کر کے ہرگز نہ رونا) پھر فرمایا کہ جو کچھ آنکھوں سے (یعنی آنسو) اور دل سے (یعنی رنج و غم) ظاہر ہو یہ اللہ کی طرف سے ہے اور رحمت کا سبب ہے۔ (یعنی یہ چیزیں اللہ کی پسندیدہ ہیں) اور جو کچھ ہاتھوں سے ظاہر ہو وہ شیطان کی طرف سے ہے۔ (احمد)

تشریح
حدیث کے آخری جز کا مطلب یہ ہے کہ اظہار رنج و غم کے وقت جو چیزیں ہاتھوں سے ظاہر ہوتی ہیں جیسے منہ پیٹنا کپڑے پھاڑنے اور بال نوچنے کھسوٹنے یا جو چیزیں زبان سے سرزد ہوتی ہیں جیسے چلانا و چیخنا نوحہ یعنی بین کرنا، یا زبان سے ایسی باتیں نکالنی جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہ ہوں یہ سب چیزیں شیطان کی طرف سے ہیں بایں طور کہ جب شیطان بہکاتا ہے تو یہ چیزیں صادر ہوتی ہیں اور ان چیزوں کو شیطان پسند کرتا ہے۔
Top