مشکوٰۃ المصابیح - میت پر رونے کا بیان - حدیث نمبر 1733
وعن النعمان بن بشير قال : أغمي على عبد الله بن رواحة فجعلت أخته عمرة تبكي : واجبلاه واكذا واكذا تعدد عليه فقال حين أفاق : ما قلت شيئا إلا قيل لي : أنت كذلك ؟ زاد في رواية فلما مات لم تبك عليه . رواه البخاري
بین کرنے کی ممانعت
حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت عبداللہ بن رواحہ (اتنے سخت بیمار ہوئے کہ موت کے قریب پہنچ گئے اور ان پر بےہوشی طاری ہوئی تو ان کی بہن عمرہ نے رونا اور یہ کہنا شروع کیا کہ اے پہاڑ افسوس اور اے ایسے اور ویسے یعنی ان کی خوبیاں گن گن کر بیان کرنے لگیں جب حضرت عبداللہ ہوش میں آئے تو بہن سے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے وہی مجھے بطور تنبیہ کے کہا گیا ہے تم ایسے مثلاً جب تم نے کہا کہ واجبلاہ یعنی اے پہاڑ افسوس ہے تو مجھ کہا گیا تھا کہ تم پہاڑ کیوں ہو کہ لوگ تمہاری پناہ پکڑتے ہیں ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ چناچہ جب عبداللہ کا انتقال ہوا (یعنی غزوہ موتہ میں شہید ہوئے) تو ان کی بہن ان پر روئی نہیں۔
Top