مشکوٰۃ المصابیح - میت پر رونے کا بیان - حدیث نمبر 1729
وعن عمرة بنت عبد الرحمن أنها قالت : سمعت عائشة وذكر لها أن عبد الله بن عمر يقول : إن الميت ليعذب ببكاء الحي عليه تقول : يغفر الله لأبي عبد الرحمن أما إنه لم يكذب ولكنه نسي أو أخطأ إنما مر رسول الله صلى الله عليه و سلم على يهودية يبكي عليها فقال : إنهم ليبكون عليها وإنها لتعذب في قبرها
میت کو نوحہ اور اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے
حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن ؓ کہتی ہیں کہ اس وقت حضرت عائشہ ؓ یہ کہا گیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر یہ کہتے ہیں کہ میت کو اس پر زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو میں نے حضرت عائشہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بخشے ابوعبدالرحمن (یہ حضرت عبداللہ بن عمر کی کنیت ہے) کو! جان لو کہ عبداللہ بن عمر نے جھوٹ نہیں بولا ہے بلکہ وہ بھول گئے ہیں آنحضرت ﷺ نے اس بارے میں ایک خاص موقع پر یہ ارشاد فرمایا تھا یا یہ کہ حضرت عبداللہ بن عمر کی اجتہادی خطا ہے کہ اس ارشاد سے عام حکم مراد لے رہے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک مرتبہ ایک یہودی عورت کی قبر کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہاں اس قبر پر لوگ رو رہے تھے یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے عزیز و اقا رب اس پر رو رہے ہیں اور وہ عورت اپنی قبر کے اندر عذاب میں مبتلا ہے۔

تشریح
اللہ بخشے، اہل عرب میں یہ جملہ ایسے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جب کہ کوئی شخص اپنی کسی بات اور گفتگو میں خطا کرتا ہے۔ حضرت عائشہ کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر نے اس موقع پر آنحضرت ﷺ کے ارشاد سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کہ اس کے عزیز و اقا رب رو رہے ہیں اور وہ اپنی قبر کے اندر عذاب میں مبتلا ہے، کا مطلب صرف یہ تھا کہ یہ لوگ کتنے جاہل اور نادان ہیں کہ وہ بدبخت عورت تو اپنی قبر کے اندر اللہ کے عذاب میں مبتلا اور مطعون و خوار ہے جیسا کہ کافروں کا حال ہوتا ہے مگر یہ لوگ اسے مرحومہ سمجھ رہے ہیں اور اس سے محبت وتعلق کا اظہار کر رہا ہے لہٰذا آنحضرت ﷺ نے یہ بات بطور خاص اس یہودی عورت کے بارے میں فرمائی تھی اس طرح دوسرے کافروں کے بارے میں بھی یہی صورت حال ہوتی ہے کہ ان کے عزیز و اقا رب انہیں مرحوم سمجھ کر اور ان سے اپنے قلبی تعلق کا اظہار کر کے روتے ہیں پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ نے تو یہ بھی نہیں فرمایا تھا کہ وہ ان کے رونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہے۔ گویا حضرت عائشہ کے اعتراض کا حاصل یہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے تو اس عورت کے کفر کی بناء پر فرمایا تھا کہ وہ اپنے کفر کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہے اور عبداللہ بن عمر یہ سمجھے کہ آنحضرت ﷺ نے بطور کلیہ کے یہ ارشاد فرمایا کہ میت اپنے اوپر زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کی جاتی ہے۔ یہ تو اس روایت کی وضاحت کی گئی ہے جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے تو علماء لکھتے ہیں کہ اس بارے میں حضرت عائشہ ؓ کا یہ اعتراض بھی ان کے لئے اپنے اجتہاد پر مبنی ہے کیونکہ حضرت عائشہ کا یہ اعتراض اس وقت صحیح ہوسکتا ہے جبکہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد خاص طور پر صرف اسی موقع سے منقول ہوا ہو حالانکہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی مختلف الفاظ کے ساتھ اور حضرت عبداللہ بن عمر نیز دوسرے صحابہ کی متعدد روایتوں سے منقول ہے لہٰذا حضرت عائشہ کا یہ فرمانا کہ یہ ارشاد اس خاص موقع پر اور صرف اس یہودیہ کے بارے میں تھا کچھ سمجھ میں نہیں آیا! بہرحال اس مسئلہ کی مزید وضاحت اگلی حدیث کی تشریح کے ضمن میں دیکھئے۔
Top