مرجانے والی چھوٹی اولاد ذخیرآخرت ہوتی ہے
حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے جس شخص کے دو بچے بالغ ہونے سے پہلے مرگئے اللہ تعالیٰ اسے ان دونوں بچوں کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا (یہ سن کر حضرت عائشہ نے پوچھا کہ اور آپ کی امت میں سے جس شخص کا ایک ہی بچہ مرا ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے موفقہ! جس شخص کا ایک بچہ مرا ہو اس کے لئے بھی یہ بشارت ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے پھر پوچھا کہ آپ ﷺ کی امت میں اگر جس شخص کا ایک بچہ بھی نہ مرا ہو؟ تو اس کے لئے کیا بشارت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا پھر میں تو اپنی امت کا میر منزل ہوں ہی کیونکہ میری (وفات کی) مصیبت جیسی کسی اور مصیبت سے دوچار نہ ہوئے ہوں گے۔ (ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
فرط اس شخص کو کہتے ہیں جو قافلہ سے پہلے منزل پر پہنچ کر اہل قافلہ کے لئے سامان خوردونوش تیار کرتا ہے یہاں اس حدیث میں مذکور فرط سے مراد وہ بچہ ہے جو بالغ ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کو پیارا ہوجائے ایسے بچہ کو فرط اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آخرت میں پہلے پہنچ کر اپنے والدین کے لئے جنت کی نعمتوں کا انتظام کرتا ہے یعنی وہ اپنے ماں باپ کو اللہ رب العزت سے سفارش و شفاعت کر کے جنت میں لے جائے گا۔ ہاں حدیث کے آخری جملہ فانا فرط امتی الخ میں فرط سے فوت شدہ نابالغ بچے مراد نہیں ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ کو کمال تعلق اور ان کی ذات خصوصیت نیز ان کے اوصاف فضائل کی بنا پر موفقہ کہہ کر مخاطب کیا جو مجموعہ فضل و کمال لقب ہے اس کے معنیٰ ہیں کہ اے عائشہ کہ جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر و بھلائی اور اچھی باتوں کے پوچھنے کی توفیق عطا کی گئی ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنی امت کے میر منزل ہوں بایں طور کہ میں ان سے پہلے آخرت میں پہنچ کر شفاعت کروں گا اور ان کو جنت میں لے جاؤں گا کیونکہ ثواب مصیبت اور مشقت کے بقدر ہوتا ہے یعنی مصیبت و مشقت جتنی سخت و شدید ہوتی ہے اتنا ہی ثواب زیادہ ملتا ہے لہٰذا اس دنیا سے میرا اٹھ جانا اس کے لئے اتنی بڑی مصیبت اور اتنا بڑاحادثہ ہے کہ اور کوئی مصیبت نہیں ہوسکتی، لہٰذا میرے بعد میری امت کا ہر فرد حقیقۃً اور حکماً اس حادثہ و مصیبت سے دوچار ہوگا اس لئے جن لوگوں کی چھوٹی اولاد فوت ہو کر ان کے لئے ذخیرہ آخر نہ بھی ہوئی ہوگی تو میرے وصال کا یہ حادثہ ہی ان کے لئے مذکورہ بالا سعادت و بشارت کے طور پر کافی ہوگا۔