مشکوٰۃ المصابیح - میت پر رونے کا بیان - حدیث نمبر 1713
وعن أبي مالك الأشعري قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أربع في أمتي من أمر الجاهلية لا يتركونهن : الفخر في الأحساب والطعن في الأنساب والاستسقاء بالنجوم والنياحة . وقال : النائحة إذا لم تتب قبل موتها تقام يوم القيامة وعليها سربال من قطران ودرع من جرب . رواه مسلم
نوحہ کی برائی
حضرت ابومالک اشعری ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا زمانہ جاہلیت کی چار باتیں ایسی ہیں جنہیں میرے امت کے (کچھ) لوگ نہیں چھوڑیں گے۔ (١) حسب پر فخر کرنا، (٢) نسب پر طعن کرنا (٣) ستاروں کے ذریعہ پانی مانگنا (٤) نوحہ کرنا، نیز آپ ﷺ نے فرمایا نوحہ کرنے والی عورت نے اگر مرنے سے پہلے توبہ نہیں کی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں کھڑی کی جائے گی کہ اس کے جسم پر قطران اور خارش کا کرتا ہوگا۔ (مسلم)

تشریح
حسب ان خصلتوں کو کہتے ہیں جو اگر کسی مسلمان کے اندر موجود ہوں تو وہ ان کی موجودگی کی وجہ سے اپنے کو بہتر و اچھا سمجھتا ہے جیسے شجاعت و بہادری اور فصاحت وغیرہ۔ نسب پر طعن کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے نسب میں اس طرح عیب جوئی کی جائے کہ فلاں شخص کا باپ برا تھا اور فلاں شخص کا دادا کمتر تھا۔ چونکہ حسب پر فخر کرنے اور نسب پر طعن کرنے کی وجہ سے اپنی تعظیم و بڑائی اور دوسرے لوگوں کی حقارت لازم آتی ہے اس لئے یہ دونوں چیزیں ہی مذموم ہیں ہاں اسلام و کفر کے امتیاز کی بناء پر ان دونوں میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یعنی اگر کوئی مسلمان اپنے ایمان و اسلام کی وجہ سے اپنے آپ کو بزرگ اور بڑا جانے اور کسی کافر کو اس کے کفر کی وجہ سے حقیر و کمتر سمجھے تو یہ جائز ہے۔ ستاروں کے ذریعہ پانی مانگنے سے مراد یہ ہے کہ ستاروں کی تاثیر پر بارش کی امید رکھنا یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ اگر فلاں ستارہ منزل میں داخل ہوجائے تو بارش ہوگی۔ اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اعتقاد رکھنا کہ فلاں ستارے کے فلاں منزل میں داخل ہونے کی وجہ سے بارش ہوگی، حرام ہے بلکہ جب بارش ہو تو یہ کہنا واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں بارش سے سیراب کیا ہے۔ نوحہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مرجائے تو اس پر واویلا کیا جائے اور میت کی اچھی خصلتیں رو رو کر اس طرح بیان کی جائے کہ ہائے وہ کتنا بہادر تھا، ہائے وہ ایسا تھا ہائے وہ ویسا تھا۔ قطران کو لتار کی مانند ایک دوا کا نام ہے جو سیاہ اور بدبو دار ہوتی ہے اور ابہل درخت سے کہ جو ہوبر بھی کہا جاتا ہے نکلتی ہے اس اونٹ کے جسم پر ملتے ہیں جسے خارش ہوجاتی ہے چونکہ اس کے اندر حرارت اور گرمی زیادہ ہوتی ہے اس لئے اونٹ کی خارش کو جلا دیتی ہے اس کا ایک خاص اثر یہ بھی ہے کہ آگ کا اثر بہت جلد قبول کرتی ہے اور جلدی ہی بھڑک اٹھتی ہے۔ ارشاد گرامی کے اس آخری جملہ کا مطلب یہ ہوا کہ نوحہ کرنے والی عورت اپنے برے فعل سے توبہ کئے بغیر مرگئی تو قیامت کے روز اس کے جسم پر خارش مسلمط کی جائے گی پھر اس پر قطران ملی جائے گی تاکہ اس کی خارش میں اور زیادہ سوزش وجلن پیدا ہو اور وہ زیادہ ایذاء پائے۔
Top