نواسے کا انتقال پر آنحضرت ﷺ کے آنسو
حضرت اسامہ بن زید ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی (حضرت زینب) نے آپ ﷺ کے پاس کسی کے ذریعہ سے یہ پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا دم توڑ رہا ہے اس لئے (فورا) آپ ﷺ میرے پاس تشریف لے آئیے۔ آنحضرت ﷺ نے (اس کے جواب میں) سلام کے بعد کہ کہلا بھیجا کہ جو چیز (یعنی اولاد وغیرہ) اللہ نے لے لی وہ بھی اسی کی تھی اور جو چیز اس نے دے رکھی ہے وہ بھی اسی کی ہے (لہٰذا ان کے اٹھ جانے پر جزع و فزع نہ کرنا چاہئے کیونکہ چاہئے کیونکہ اس کی امانت تھی جسے اس نے واپس لے لیا) اور اس (خدا) کے نزدیک ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے (یعنی تمہارے بیٹھے کی زندگی اتنے ہی دنوں کے لئے لکھی گئی تھی جتنے دن کہ وہ زندہ رہا۔ بس تمہیں صبر کرنا اور اللہ سے ثواب کا طلب گار رہنا چاہے۔ حضرت زینب نے دوبارہ آدمی بھیجا اور (اس مرتبہ) انہوں نے آنحضرت ﷺ کو قسم دی کہ ضرور ہی تشریف لائیے چناچہ آپ ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے حضرت سعد بن عبادہ حضرت معاذ بن جبل حضرت ابی بن کعب حضرت زید بن ثابت اور صحابہ میں سے دوسرے لوگ آپ کے ساتھ ہو لئے جب آپ صاحبزادی کے ہاں پہچے تو بچہ آپ کی گود میں دے دیا گیا جو جان کنی کی حالت میں تھا اسے دیکھ کر آنحضرت ﷺ کی آنکھیں آنسو بہانے لگیں حضرت سعد نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ کیا ہے آپ نے فرمایا کہ یہ رحمت ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا فرمایا ہے اچھی طرح سن لو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے صرف انہیں لوگوں پر رحمت یعنی مہربانی کرتا ہے جو جذبہ ترحم رکھنے والے ہیں۔ (بخاری)
تشریح
حضرت سعد نے چونکہ یہ گمان کیا کہ رونے کی تمام اقسام حرام و مکروہ ہیں اور آنحضرت ﷺ اس وقت سہوا رو رہے ہیں اس لئے آنحضرت ﷺ نے انہیں آگاہ کیا کہ رونے کی تمام اقسام حرام و مکروہ نہیں ہے بلکہ اس طرح رونا تو اس جذبہ ترحم کی علامت ہے جو دل میں امنڈ رہا ہوتا ہے ہاں نوحہ کے ساتھ رونا، چاک گریبان ہونا اور سینہ پیٹنا البتہ حرام و ممنوع ہے۔