مشکوٰۃ المصابیح - مردہ کو دفن کرنے کا بیان - حدیث نمبر 1692
وعن المطلب بن أبي وداعة قال : لما مات عثمان ابن مظعون أخرج بجنازته فدفن أمر النبي صلى الله عليه و سلم رجلا أن يأتيه بحجر فلم يستطع حملها فقام إليه رسول الله صلى الله عليه و سلم وحسر عن ذراعيه . قال المطلب : قال الذي يخبرني عن رسول الله صلى الله عليه و سلم : كأني أنظر إلى بياض ذراعي رسول الله صلى الله عليه و سلم حين حسر عنهما ثم حملها فوضعها عند رأسه وقال : اعلم بها قبر أخي وأدفن إليه من مات من أهلي . رواه أبو داود
علامت کے لئے قبر پر کوئی پتھر رکھ دینا جائز ہے
اور حضرت مطلب ؓ بن ابو وداعہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن مظعون کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ (باہر نکالا گیا اور دفن کیا گیا جب تدفین سے فراغت ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ایک بڑا پتھر لائے تاکہ اسے قبر پر علامت کے لئے رکھ دیا جائے اس شخص سے پتھر نہ اٹھ سکا تو آنحضرت ﷺ اسے اٹھانے کے لئے خود کھڑے ہوئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کی آستینیں چڑھائیں۔ حدیث کے راوی حضرت مطلب فرماتے ہیں کہ جس شخص نے مجھ سے رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بیان کی وہ کہتے تھے کہ گویا اس وقت بھی آنحضرت ﷺ کے مبارک ہاتھوں کی سفیدی میری نظروں میں گھوم رہی ہے جب کہ آپ نے اسے کھولا تھا، بہرحال آنحضرت ﷺ نے وہ پتھر اٹھا لیا اور اسے حضرت عثمان ؓ کی قبر کے سرہانے رکھ دیا اور فرمایا کہ میں نے اس کے ذریعہ اپنے بھائی کی قبر پر علامت کردی ہے اب میرے گھر والوں میں سے جس کا انتقال ہوگا میں اسے اس کے پاس دفن کر دوں گا۔

تشریح
حضرت مطلب بن ابی وداوعہ ؓ صحابی اور فتح مکہ کے دن مشرف باسلام ہوئے تھے انہوں نے اس روایت کو ایک دوسرے صحابی سے اس لئے نقل کیا ہے کہ یہ خود اس موقع پر موجود نہ تھے۔ حضرت عثمان بن مظعون آنحضرت ﷺ کے دودھ شریک بھائی تھے انہوں نے بالکل ابتدائی زمانہ ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا چناچہ ان سے پہلے صرف تیرہ آدمی اسلام لا چکے تھے، غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے، مدینہ میں مہاجرین میں سے سب سے پہلے انہی کا انتقال ہوا تھا ان کی قبر کے قریب سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم دفن کئے گئے تھے۔ ازہار میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ قبر پر بطور علامت و نشانی کوئی پتھر وغیرہ رکھ دینا مستحب ہے تاکہ قبر پہچانی جاسکے نیز اہل خاندان اور اقربا کو ایک جگہ دفن کرنا بھی مستحب ہے۔
Top