مشکوٰۃ المصابیح - مردہ کو دفن کرنے کا بیان - حدیث نمبر 1685
دفن کے بعد قبر کھودنے کا مسئلہ
میت کو دفن کرنے اور قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد (میت کو نکالنے کے لئے یا کسی اور مقصد کے تحت) قبر کو کھودنا جائز نہیں ہے خواہ دفن کئے ہوئے بہت تھوڑا وقفہ ہوا ہو یا زیادہ عرصہ ہوگیا ہو ہاں عذر کی بنا پر جائز ہوگا مثلاً یہ اگر دفن کرنے کے بعد یہ ظاہر ہو کہ جس زمین پر قبر بنائی گئی ہے وہ زمین غصب کی ہے یا اس زمین کو کسی شخص نے بحق شفعہ لے کر اپنی ملکیت بنا لی تو ان صورتوں میں مالک زمین کے مطالبہ پر قبر کھودنا جائز ہوگا علماء لکھتے ہیں کہ کتنے ہی صحابی کافروں کے شہروں میں دفن کئے گئے مگر انہیں وہاں سے منتقل نہیں کیا گیا۔ اگر اس زمین کا مالک کہ جس میں قبر بنائی گئی ہے یہ چاہے کہ زمین کو ہموار کرلے اور اس میں کھیتی باڑی کرے تو اسے حق پہنچتا ہے دفن کرنے کے بعد قبر کھودنے کا اعذار میں ایک عذر یہ بھی ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی مال یا کپڑا وغیرہ قبر میں رہ جائے تو اس کے لئے جائز ہے کہ قبر کھود کر وہ مال یا کپڑا نکال دیں۔ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ علماء اور مشائخ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی عورت کا بیٹا شہر کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں دفن کردیا جائے اور وہاں وہ عورت موجود نہ رہی ہو اور پھر اسے اس کی مامتا بےچین کرے اور وہ اس بات پر اصرار کرے کہ اس کے بیٹے کی نعش اس کے شہر میں منتقل کردی جائے تو اس صورت میں قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ نعش کو منتقل کردیا جائے چناچہ اس بارے میں بعد کے بعض علماء جس جواز کے قائل ہوئے ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ صاحب ہدایہ نے (ہدایہ کے علاوہ اپنی کسی دوسری کتاب میں) لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی شہر میں مرجائے تو اس کی نعش کو دوسرے شہر منتقل کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس طرح نہ صرف یہ کہ ایک بےفائدہ اور لاحاصل چیز میں وقت صرف ہوتا ہے بلکہ میت کو دفن کرنے میں بھی تاخیر ہوتی ہے، نیز علماء کا بالاتفاق یہ فیصلہ ہے کہ اگر کوئی میت بغیر نماز کے بھی دفن کردی جائے تب بھی اس قہر سے نکالنا جائز نہیں ہے۔ کسی شخص کو اس مکان میں دفن نہ کیا جائے جس میں وہ رہا کرتا تھا کیونکہ یہ صرف انبیاء کرام صلوات اللہ وسلم علیہم کے ساتھ مختص ہے دوسرے کے لئے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔
Top