مشکوٰۃ المصابیح - میت کو نہلانے اور کفنانے کا بیان - حدیث نمبر 1620
وعن جابر قال : أتى رسول الله صلى الله عليه و سلم عبد الله بن أبي بعدما أدخل حفرته فأمر به فأخرج فوضعه على ركبتيه ن فنفث فيه من ريقه وألبسه قميصه قال : وكان كسا عباسا قميصا المشي بالجنازة والصلاة عليها - الفصل الأول
رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے ساتھ اس کے انتقال کے بعد آنحضرت ﷺ کا معاملہ
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ عبداللہ بن ابی کے پاس اس وقت تشریف لائے جب کہ وہ اپنی قبر میں اتارا جا چکا تھا۔ آپ ﷺ نے اسے (اس کی قبر) سے نکالنے کا حکم فرمایا جب وہ نکالا گیا تو آپ ﷺ نے اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اپنا مبارک لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اسے اپنا کرتہ پہنایا حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی نے حضرت عباس کو اپنا کرتہ پہنایا تھا (بخاری ومسلم)

تشریح
عبداللہ بن ابی اسلامی تاریخ کا ایک جانا پہچانا شخص ہے، جب نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ فروکش ہوئے اور اس طرح اسلامی دعوت و تبلیغ کا مرکز مکہ سے مدینہ منورہ منتقل ہوا تو اسلام کی دعوت توحید و رسال کے نتیجہ میں تین جماعتیں سامنے آئیں، ایک جماعت تو ان باسعادت و مقدس اور عظیم انسانوں پر مشتمل تھی جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا، خلوص اور صدق دل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور آنحضرت ﷺ کی رسالت پر ایمان لائے اور نبوت کے بعد نسل انسانی کے سب سے عظیم و باسعات مرتبہ صحابیت سے نوازے گئے۔ دوسری جماعت پہلی کے بالکل برعکس ان بدبخت وسیہ کار لوگوں پر مشتمل تھی جنہوں نے علی الاعلان آنحضرت ﷺ کی مخالفت کی اور جس کے نتیجہ میں نسل انسانی کے سب سے ذلیل و کمتر درجہ کفر و شرک پر قائم رہے۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان ایک تیسری جماعت تھی یہ تیسری جماعت ان خود غرض و مفاد پرست لوگوں پر مشتمل تھی جو اپنی اغراض و مقاصد کے تحت بظاہر تو مسلمان ہوگئے تھے اور مسلمانوں کو دکھانے کے لئے ان کے ہمنوا بھی ہوتے تھے مگر اندرونی طور پر ان کی ساری سرگرمیوں کا مرکز دعوت اسلامی کی مخالفت اور مسلمانوں کی بیخ کنی کا جذبہ ہوتا تھا۔ یہی وہ جماعت تھی جو انسانیت کی ارذل ترین اور قابل نفرین خصلت نفاق سے بھر پور تھی اور اسلامی تاریخ میں یہی جماعت منافقین کے نام سے یاد کی گئی۔ عبداللہ بن ابی اسی جماعت کا سربراہ اور سردار تھا۔ حضرت عباس ؓ (آنحضرت ﷺ کے عم محترم) اگرچہ غزوہ بدر سے بہت پہلے ہی اسلام قبول کرچکے تھے مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کیا تھا، چناچہ جب جنگ بدر ہوئی تو یہ کفار مکہ کی طرف سے بدر میں مجبورا شریک ہوئے۔ مگر آنحضرت ﷺ کو چونکہ یہ معلوم تھا کہ یہ مسلمان ہوچکے ہیں اس لئے آپ ﷺ نے مسلمانوں کو آگاہ فرما دیا تھا کہ جنگ میں ان پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ بہر حال جب جنگ ختم ہوئی اور حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح و غلبہ نصیب فرمایا تو اسلامی لشکر کفار مکہ کی ایک بڑی تعداد کو میدان جنگ سے اسیر بنا کر مدینہ لایا۔ انہیں قیدیوں میں حضرت عباس ؓ بھی تھے، حضرت عباس جب مدینہ لائے گئے تو ان کے بدن پر کپڑا نہیں تھا اور چونکہ وہ دراز قد تھے اس لئے کسی مسلمان کا لباس ان کے جسم پر نہیں آیا، اتفاق سے عبداللہ بن ابی بھی دراز قد تھا اس نے اپنا کرتہ حضرت عباس کے لئے پیش کیا جسے بدرجہ مجبوری قبول کرلیا گیا اس طرح حضرت عباس نے عبداللہ بن ابی کا کرتہ پہنا۔ چناچہ جب عبداللہ بن ابی مرا تو آنحضرت ﷺ نے اس کے کرتہ کا بدلہ اتارنے کے لئے اپنا کرتہ اس کو پہنا دیا تاکہ آپ ﷺ پر ایک منافق کا احسان باقی نہ رہے۔ اس موقعہ پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے آیت (ولا تصلی علی احد منہم مات ابدا ولا تقم علیٰ قبرہ)۔ منافقین میں سے جو مرجائے اس کے لئے (مغفرت و بخشش کی) کبھی دعا نہ کیجئے اور نہ ہی اس کی قبر پر جائیے۔ مگر اس کے باوجود آنحضرت ﷺ عبداللہ بن ابی کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس کو اپنا کرتہ پہنایا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا؟ علماء نے اس اشکال کے بہت سارے جواب دئیے ہیں جو پوری تفصیل کے ساتھ دوسری شروح میں مذکور ہیں یہاں تو صرف یہ جواب نقل کردینا کافی ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ مذکورہ بالا آیت نازل نہیں ہوئی تھی، پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ کا مقصد صرف اس کے ایک احسان کا بدلہ اتارنا تھا جیسا کہ ابھی بیان کیا گیا، نیز عبداللہ بن ابی کا لڑکا چونکہ مخلص و صادق مومن تھا اور وہ نفاق سے پاک تھا اس لئے اس کی تالیف قلب اور خاطر داری بھی پیش نظر تھی۔
Top