مشکوٰۃ المصابیح - میت کو نہلانے اور کفنانے کا بیان - حدیث نمبر 1610
عن أم عطية قالت : دخل علينا رسول الله صلى الله عليه و سلم ونحن نغسل ابنته فقال : اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك بماء وسدر واجعلن في الاخرة كافورا أو شيئا من كافور فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فألقى إلينا حقوه وقال : أشعرنها إياه وفي رواية : اغسلنها وترا : ثلاثا أو خمسا أو سبعا وابدأن بميامنها ومواضع الوضوء منها . وقالت فضفرنا شعرها ثلاثة قرون فألقيناها خلفها
غسل میت
حضرت ام عطیہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس رسول کریم ﷺ تشریف لائے جب کہ ہم آپ کی بیٹی (حضرت زینب ؓ کو نہلا رہے تھے آپ نے فرمایا تم تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ اور اگر مناسب سمجھو (یعنی ضرورت ہو تو اس سے بھی زیادہ اسے پانی اور بیری کے پتوں سے (یعنی بیری کے پانی میں جوش دے کر اس پانی سے نہلاؤ (کیونکہ بیری کے پتوں کے جوش دئیے ہوئے پانی سے بہت زیادہ پاکی اور صفائی حاصل ہوتی ہے) اور آخری مرتبہ میں کافور یا یہ فرمایا کہ کافور کا کچھ حصہ (پانی میں) ڈال دینا۔ اور جب تم (نہلانے سے) فارغ ہوجاؤ تو مجھے خبر دینا، چناچہ جب ہم فارغ ہوگئے تو آنحضرت ﷺ کو اطلاع دی گئی، آپ نے اپنا تہ بند ہماری طرف بڑھا دیا اور فرمایا کہ اس تہ بند کو اس کے بدن سے لگا دو (یعنی اس تہ بند کو اس طرف کفن کے نیچے رکھ دو کہ وہ زینب کے بدن سے لگا رہے) اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اسے طاق یعنی تین بار یا پانچ بار یا سات بار غسل دو اور غسل اس کی دائیں طرف سے اور اس کے اعضاء وضو سے شروع کرو۔ حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ ہم نے ان کے بالوں کی تین چوٹیاں گوندھ کر ان کے پیچھے ڈال دیں۔ (صحیح بخاری و مسلم)

تشریح
حدیث کے الفاظ اغسلنہا ثلاثا او خمسا او اکثر من ذالک اور اغسلنہا وترا ثلاثا او خمسا او سبعا میں حرف او ترتیب کے لئے ہے تخییر کے لئے نہیں ہے کیونکہ اگر پہلے غسل میں پاکی حاصل ہوجائے تو تین مرتبہ نہلانا مستحب ہے اور اس سے تجاوز کرنا مکروہ ہے اور اگر پاکی دو بار یا تین بار میں حاصل ہو تو پھر پانچ مرتبہ نہلانا مستحب ہے یا زیادہ سے زیادہ سات مرتبہ، سات مرتبہ سے زیادہ نہلانا منقول نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ نہلانا مکروہ ہے۔ بیری کے پتوں اور کافور کے پانی سے غسل میت میت کو بیری کے پتوں اور کافور کے پانی سے نہلانا چاہئے اس سلسلہ میں ضابطہ یہ ہے کہ دو دو مرتبہ تو بیری کے پتوں کے پانی سے نہلایا جائے جیسا کہ کتاب ہدایہ سے معلوم ہوتا ہے نیز ابوداؤد کی روایت ہے کہ ابن سیرین (رح) نے حضرت ام عطیہ ؓ سے غسل میت سیکھا تھا۔ وہ بیری کے پتوں کے پانی سے دو مرتبہ غسل دیتی تھیں۔ اور تیسری مرتبہ کافور کے پانی سے غسل دیا جائے۔ کافور پانی میں ملایا جائے یا خوشبو میں؟ شیخ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ کافور اس پانی میں ملایا جائے جس سے میت کو نہلایا جا رہا ہو چناچہ جمہور علماء کی بھی یہی رائے ہے، جب کہ کوئی کہتے ہیں کہ کافور حنوط میں یعنی اس خوشبو میں ملایا جائے جس سے میت کو معطر کیا جا رہا ہو اور میت کے نہلانے اور اس کے بدن کو خشک کرنے کے بعد بدن پر لگایا جائے نیز علماء نے لکھا ہے کہ اگر کافور میسر نہ ہو تو پھر مشک اس کا قائم مقام قرار دیا جاتا ہے۔ بیری کے پتوں اور کافور کی خاصیت علماء لکھتے ہیں کہ بیری کے پتوں اور کافور کے پانی سے میت کو غسل دینے اور میت کے بدن پر کافور ملنے کی وجہ یہ ہے کہ بیری کے پتوں سے تو بدن کا میل اچھی طرح صاف ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے مردہ جلدی بگڑتا نہیں نیز بیری کے پتوں اور کافور کے استعمال کی وجہ سے موذی جانور پاس نہیں آتے۔ حصول برکت کے لئے بزرگوں کا کوئی کپڑا کفن میں شامل کیا جاسکتا ہے آنحضرت ﷺ نے اپنا تہ بند صاحبزادی کے کفن کے ساتھ لگانے کے لئے اس لئے عنایت فرمایا تاکہ اس کی برکت اسے پہنچے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح کوئی شخص اہل اللہ اور بزرگان دین سے اس کے لباس کا کوئی کپڑا موت سے پہلے حاصل کر کے اپنے پاس برکت کے لئے رکھتا ہے یا اسے استعمال کرتا ہے اس طرح موت کے بعد بزرگوں کے لباس سے برکت حاصل کرنا مستحب ہے بایں طور کہ ان کا کوئی کپڑا لے کر کفن میں شامل کردیا جائے لیکن اس سلسلہ میں یہ امر ملحوظ رہے کہ وہ کپڑا کفن کے کپڑوں سے زیادہ نہ ہو۔ ابدان بمیا منہا کا مطلب یہ ہے کہ میت کو اس کے دائیں ہاتھ دائیں پہلو اور دائیں پاؤں کی طرف سے نہلانا شروع کرو اسی طرح مواضع الوضو منہا میں حر واو مطلق جمع کے لئے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ غسل میت میں پہلے اعضاء وضو دھونے چاہئیں اس کے بعد دوسرے اعضاء دھوئے جائیں اور اعضاء وضو سے مراد وہ اعضاء ہیں کہ جن کا دھونا فرض ہے۔ چناچہ غسل میت میں کلی اور ناک میں پانی دینا حنفیہ کے نزدیک مشروع نہیں بعض علماء نے اس بات کو مستحب کہا ہے کہ میت کو نہلانے والا اپنی انگلیوں پر کپڑا لپیٹ لے اور اس سے میت کے دانتوں کو، تالو، کو اندر سے دونوں کلوں کو اور نتھنوں کو ملے، چناچہ اب یہی معمول بہ ہے۔ صحیح یہ ہے کہ غسل کے وقت میت کے سر پر مسح کیا جائے اور اس کے پاؤں غسل کے بعد نہ دھوئے جائیں بلکہ جب دوسرے اعضاء وضو دھوئے جاتے ہیں تو اسی وقت پیروں کو بھی دھویا جائے۔ نیز میت کے ہاتھ پہلے نہ دھوئے جائیں بلکہ غسل کی ابتداء منہ دھونے سے کرنی چاہئے بخلاف جنبی (ناپاک شخص) کے کہ وہ جب غسل کرتا ہے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ اس لئے دھوتا ہے تاکہ دوسرے اعضاء دھونے کے لئے دونوں ہاتھ پاک ہوجائیں جب کہ میت دوسروں کے ہاتھوں نہلائی جاتی ہے اس لئے اس کے دونوں ہاتھوں کو دھلانے کی حاجت نہیں ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ اگر عورت کی میت ہو تو غسل کے بعد اس کے بال کھلے ہی رہنے دئیے جائیں انہیں گودھا نہ جائے۔
Top