مشکوٰۃ المصابیح - آرزوئے موت اور موت کو یاد رکھنے کی فضیلت کا بیان - حدیث نمبر 1590
عن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تمنوا الموت فإن هول المطلع شديد وإن من السعادة أن يطول عمر العبد ويرزقه الله عز و جل الإنابة . رواه أحمد
نیک اعمال میں زیادتی کے لئے درازی عمر باعث سعادت ہے
حضرت ابوامامہ ؓ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) ہم لوگ رسول کریم ﷺ کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے، آپ ﷺ نے پند و نصیحت فرمائی اور (آخرت کا خوف دلا کر) ہمارے دلوں کو نرم کردیا، چناچہ حضرت سعد ابن ابی وقاص ؓ رونے لگے اور بہت روئے اور پھر کہنے لگے کہ کاش میں بچپن ہی میں مرجاتا (تو گنہگار نہ ہوتا اور عذاب آخرت سے نجات پاتا) آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ سعد! کیا تم میرے سامنے موت کی آرزو کرتے ہو؟ اور آپ ﷺ نے یہ الفاظ تین بار کہے اور پھر ارشاد فرمایا سعد! اگر تم جنت کے لئے پیدا کئے گئے ہو تو تمہاری عمر جس قدر دراز ہوگی اور جتنے اچھے اعمال ہوں گے اسی قدر تمہارے لئے بہتر ہوگا (احمد)

تشریح
آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کیا تم میرے سامنے موت کی آرزو کرتے ہو؟ کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد تو موت کی آرزو کے لئے کوئی وجہ ہوسکتی ہے مگر میرے ہوتے ہوئے موت کی آرزو کیسی؟ کیوں کہ میرے جمال باکمال کا دیدار اور میری صحبت کا شرف عظیم تمہارے لئے ہر نعمت سے بہتر اور اعلیٰ ہے اگرچہ میرے سامنے مرنے کے بعد تمہیں وہاں کے اعلیٰ مراتب اور نعمتیں ہی کیوں نہ حاصل ہوں اور اس میں کیا شک کہ سرکار دو عالم ﷺ کے روئے مقدس اور چہرہ مبارک کے دیدار کے مرتبہ عظیم کو اور کوئی چیز نہیں پہنچ سکتی۔ ایک مرد عارف سے کسی شخص نے پوچھا کہ مؤمن کے لئے جینا بہتر ہے یا مرنا؟ اس نے عارفانہ جواب دیا زمانہ نبوت میں جب کہ سرکار دو عالم ﷺ کے جمال جہاں کے دیدار کی نعمت عظمیٰ حاصل تھی مومن کے لئے جینا بہتر تھا اور اب ان کے بعد تو مرنا ہی بہتر ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کے بعد دوسری شق ذکر نہیں فرمائی گئی ہے جو گویا یہاں محذوف ہے اور وہ یہ ہے کہ (وان کنت خلقت للنار فلا خیر فی موتک ولا یحسن السراع الیہ)۔ یعنی اور اگر تم (نعوذ باللہ) آگ کے لئے پیدا کئے گئے ہو تو جب بھی نہ مرنے میں بھلائی ہے اور نہ موت کے لئے جلدی کرنی اچھی بات ہے۔
Top