مشکوٰۃ المصابیح - آرزوئے موت اور موت کو یاد رکھنے کی فضیلت کا بیان - حدیث نمبر 1584
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أكثروا ذكر هاذم اللذات الموت . رواه الترمذي والنسائي وابن ماجه
اللہ سے حیا کرنے کا حق
حضرت ابن مسعود ؓ راوی ہیں کہ ایک روز نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ اللہ سے حیاء کرو جیسا کہ حیاء کا حق ہے (یعنی جس طرح اللہ سے حیاء کرنی واجب ہے) اور جس حیاء کا وہ لائق ہے اس حیاء کا حق ادا کرو مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا جو حق ہے اس حق کو ادا کرو) صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ! ہم بلاشبہ اللہ تعالیٰ سے حیاء کرتے ہیں (بایں طور کہ فی الجملہ اس کے اوامرو نواہی پر عمل کرتے ہیں) اور تعریف اللہ کے لئے ہے (یعنی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ توفیق عطا فرمائی ہے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا حیاء کا حق یہ نہیں ہے جسے تم یہ کہتے ہو کہ ہم اللہ سے حیاء کرتے ہیں بلکہ (حیا کا حق تو یہ ہے کہ) جو شخص اللہ سے حیاء کرنے میں حیاء کا حق ادا کرے تو اسے چاہئے وہ سر کی اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے اس کی محافظت کرے اور پیٹ کی اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے اس کی محافظت کرے اور اسے چاہئے کہ موت کو اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے اور جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے وہ دنیا کی زینت و آرائش کو چھوڑ دیتا ہے لہٰذا جس شخص نے یہ (مذکورہ بالا ہدایت پر عمل) اس نے اللہ تعالیٰ سے حیاء کی اور حق حیاء ادا کیا احمد و ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
سر کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ سر جسے اللہ نے شرف مکرمت سے نوازا ہے اللہ کے علاوہ کسی اور کے کام نہ آئے۔ سر کو جسے اللہ نے انسانی تقدس عطا فرمایا ہے انسان کے ہاتھوں تراشے گئے فانی بتوں اور خود انسانوں کے سامنے سجدہ ریز کر کے ذلیل نہ کیا جائے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے اور اپنی دینداری کا سکہ جمانے کے لئے نماز نہ پڑھی جائے۔ سر کو اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے جھکایا نہ جائے اور سر کو از راہ غرور وتکبر بلند نہ کیا جائے۔ سر کے ساتھ کی چیزوں سے مراد ہیں۔ زبان، آنکھ اور کان اور ان چیزوں کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ ان اعضاء کو گناہ سے بچایا جائے، جیسے زبان کو غیبت میں مبتلا نہ کیا جائے اور نہ جھوٹ بولا جائے آنکھ سے نامحرم اور گناہ کی چیزیں نہ دیکھی جائیں اور کان سے کسی کی غیبت اور جھوٹ مثلاً کہانی وغیرہ نہ سنی جائے۔ پیٹ کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ حرام اور مشتبہ چیزیں نہ کھائی جائیں۔ پیٹ کے ساتھ کی چیزوں سے جسم کے وہ حصے اور اعضاء مراد ہیں جو پیٹ سے ملے ہوئے ہیں، جیسے ستر، ہاتھ پاؤں اور دل وغیرہ، مطلب یہ ہے کہ جسم کے ان اعضاء اور حصوں کو بھی گناہ سے محفوظ رکھا جائے مثلاً ستر کو حرام کاری میں مبتلا نہ کیا جائے، گناہ و فواحش کی جگہ جیسے میلے، تماشے، ناچ گانے میں نہ جایا جائے کہ اس طرح پاؤں معصیت سے محفوظ رہیں گے ہاتھوں سے کسی کو کسی بھی طرح کی ایذاء نہ پہنچائی جائے۔ جیسے نہ کسی کو مارے پیٹے، نہ کسی کا مال چوری کر کے یا چھین کرلے اور نہ نامحرم کو ہاتھ لگائے، اسی طرح دل کو برے عقیدوں، گندے خیالات اور اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی یاد سے پاک رکھا جائے۔ آخر میں انسان کے جسم خاکی کے فانی ہونے کا احساس دلایا گیا ہے۔ چناچہ فرمایا گیا ہے کہ اس بات کو کبھی نہ بھولنا چاہئے کہ آخرت کا ایک نہ ایک دن اس دنیا سے تعلق ہوجائے گا اور یہ فانی جسم خواہ کتنا ہی حسین و جمیل اور باعظمت کیوں نہ ہو قبر کی آغوش میں سلا دیا جائے گا جہاں گوشت تو گوشت ہڈیا تک بوسیدہ وخاک ہوجائیں گی۔ پھر اس کے بعد آیت (ومن اراد الآخرۃ) الخ فرما کر ایک ضابطہ بیان فرما دیا گیا ہے کہ جو شخص جانتا ہے کہ دنیا فانی ہے وہ دنیا اور دنیا کی لذات و خواہشات کو ترک کردیتا ہے، نیز یہ کہ جو شخص آخرت کے ثواب اور وہاں کی ابدی نعمتوں اور سعادتوں کی خواہش رکھتا ہے وہ دنیا کی ظاہری زیب وزینت چھوڑ دیتا ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں پورے کمال کے ساتھ کسی ایک شخص میں یہاں تک کہ اولیاء میں بھی جمع نہیں ہوسکتیں۔ اس حدیث کو لوگوں کے سامنے زیادہ سے زیادہ بیان کرنا، اس کی اشاعت کرنا اور اس کے مفہوم و مطالب سے عوام کو باخبر کرنا بڑی سعادت اور فضیلت کی بات ہے، چناچہ نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو کثرت کے ساتھ ذکر وبیان کرنا مستحب ہے۔
Top