مشکوٰۃ المصابیح - آرزوئے موت اور موت کو یاد رکھنے کی فضیلت کا بیان - حدیث نمبر 1579
وفي رواية عائشة : والموت قبل لقاء الله
مؤمن کی موت خود اس کی راحت کا ذریعہ ہے اور فاجر کی موت دنیا والوں کی راحت کا سبب ہے
حضرت ابوقتادہ ؓ یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ کے سامنے ایک جنازہ لایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ راحت پانے والا ہے، یا یہ کہ اس سے دوسروں کو راحت نصیب ہوئی؟ صحابہ نے عرض کیا کہ راحت پانے والا کون ہے؟ اور وہ کون ہے جس سے دوسروں کو راحت نصیب ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا بندہ مؤمن اپنی موت کے ذریعہ دنیا کے رنج و ایذاء سے راحت پاتا ہے اور اللہ کی رحمت کی طرف جاتا ہے اور بندہ فاجر (یعنی گنہگار) کی موت کے ذریعہ اس کے شر فساد سے بندے، شہر، درخت اور جانور (سب ہی) راحت پاتے ہیں (بخاری و مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جب بندہ مؤمن وفات پاتا ہے تو وہ دنیا کے رنج سے بایں طور راحت پاتا ہے کہ دنیا میں اعمال و احوال کی وجہ سے وہ جس مشقت و محنت میں مبتلا تھا اس سے نجات مل جاتی ہے اور دنیا کی ایذاء سے بایں طور راحت پاتا ہے کہ وہ دنیاوی تکلیف و پریشانی مثلاً گرمی سردی، تنگدستی و مفلسی وغیرہ سے یا یہ کہ اہل دنیا کی ایذاء رسانی سے اسے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ اسی لئے مسروق (رح) نے کہا ہے کہ مجھے کسی چیز پر بھی کسی چیز کے سبب اتنا رشک نہیں آتا جتنا رشک اس مؤمن پر آتا ہے جو قبر میں سلا دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے عذاب سے مامون ہوجاتا ہے اور دنیا سے راحت و سکون پا لیتا ہے۔ نیز ابوداؤد (رح) فرماتے ہیں کہ میں اپنے رب کے پاس جانے کے شوق میں موت کو پسند کرتا ہوں۔ گناہ کے کفارہ کے لئے مرض کو پسند کرتا ہوں۔ اور اپنے رب کے سامنے تواضع و انکساری کی خاطر فقر کو پسند کرتا ہوں۔ جب بندہ فاجر یعنی گنہگار مرتا ہے تو اس سے بندے تو یوں راحت پاتے ہیں کہ جب وہ اپنی زندگی میں خلاف شرع باتیں کرتا اور لوگ اسے منع کرتے تو وہ انہیں ایذاء پہنچاتا اور اگر سکوت و خاموشی اختیار کرتے تو اپنے دین اور اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتے۔ اور جب وہ گنہگار مرگیا تو لوگوں نے اس سے چھٹکارا پایا۔ اور شہر و درخت وغیرہ اس کے مرنے سے بایں طور راحت پاتے ہیں کہ گناہ و ظلم ہونے کی وجہ سے عالم میں فساد پیدا ہوجاتا ہے۔ ارکان دین میں خلل واقع ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ گنہگارو ظالم کو مبغوض رکھتا ہے لہٰذا اس کی وجہ سے زمین اور وہ تمام چیزیں جو زمین میں ہیں نقصان اٹھاتی ہیں پھر یہ کہ اس کی شومی گناہ کے سبب اللہ تعالیٰ بارش نہیں برساتا، اب جب کہ مرا تو بادلوں نے اپنے منہ کھول دیئے اور زمین کا شجر و پودا ہرا بھرا ہوگیا اور اس طرح سب ہی نے راحت پائی۔
Top