مشکوٰۃ المصابیح - نکاح کے ولی اور عورت سے نکاح کی اجازت لینے کا بیان - حدیث نمبر 3157
عن أبي موسى عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : لا نكاح إلا بولي . رواه أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي (2/209) 3131 - [ 6 ] ( صحيح ) وعن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل فنكاحها باطل فإن دخل بها فلها المهر بما استحل من فرجها فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له . رواه أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي
کمسن لڑکی کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا
حضرت ابوموسی نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ( احمد ترمذی)

تشریح
حنفیہ کے نزدیک اس حدیث کا تعلق نابالغہ اور غیر عاقلہ سے ہے یعنی کمسن لڑکی اور دیوانی کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا جب کہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد نے حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل کیا ہے چناچہ وہ کہتے ہیں کہ نکاح اسی وقت صحیح ہوتا ہے جب کہ ولی عقد کرے اور عورتوں کی عبارت کے ساتھ نکاح منعقد نہیں ہوتا عورت خواہ اصیلہ ہو یا وکیلہ ہو۔ علامہ سیوطی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو نابالغہ اور غیر عاقلہ پر محمول نہ ماننے بلکہ رکھنے کی صورت میں) جمہور علماء نے نفی صحت پر اور امام ابوحنیفہ نے نفی کمال پر محمول کیا ہے۔ اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس عورت نے اپنا نکاح اپنے ولی کی اجازت کے بغیر کیا تو اس کا نکاح باطل ہے اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، پھر اگر شوہر نے اس کے ساتھ مجامعت کی تو وہ مہر کی حق دار ہوگی کیونکہ شوہر نے اس کی شرم گاہ سے فائدہ اٹھایا ہے اور اگر کسی عورت کے ولی باہم اختلاف کریں تو جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی بادشاہ ہے ( احمد ترمذی) تشریح اس کا نکاح باطل ہے، یہ الفاظ آپ ﷺ نے تین بار ارشاد فرما کر گویا ولی کی اجازت کے بغیر ہونیوالے نکاح پر متنبہ کیا اور اس بات کی تاکید فرمائی کہ نکاح کے معاملہ میں ولی کی اجازت ومرضی کو بنیادی درجہ حاصل ہونا چاہئے، اس طرح یہ حدیث اور اسی مضمون کی دوسری حدیثیں ارشاد گرامی (الایم احق بنفسہا من ولیہا) (ایم کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کا حکم حاصل نہ کرلیا جائے) کے معارض و برعکس ہیں اس لئے حنفیہ کی طرف سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ یہاں مراد یہ ہے کہ جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر کفو سے نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے یا یہ کہ جو کمسن لڑکی یا لونڈی اور یا مکاتبہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی تو اس کا نکاح باطل ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہ حدیث اور اس سے پہلے کی حدیث یہ دونوں فنی طور پر اس درجہ کی نہیں ہیں کہ انہیں کسی مسلک کے خلاف بطور دلیل اختیار کیا جاسکے کیونکہ ان دونوں حدیثوں کے صحیح ہونے میں محدثین نے کلام کیا ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی عورت کے ولی آپس میں اختلاف و نزاع کرتے ہیں اور کسی فیصلہ پر متفق نہیں ہو پاتے توہ سب کالعدم ہوجاتے ہیں اور اس صورت میں ولایت کا حق بادشاہ وقت کو حاصل ہوتا ہے ورنہ تو یہ معلوم ہی ہے کہ ولی کی موجودگی میں بادشاہ کو ولایت کا حق حاصل نہیں ہوتا۔
Top