مشکوٰۃ المصابیح - نکاح کے ولی اور عورت سے نکاح کی اجازت لینے کا بیان - حدیث نمبر 3154
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تنكح الأيم حتى تستأمر ولا تنكح البكر حتى تستأذن . قالوا : يا رسول الله وكيف إذنها ؟ قال : أن تسكت (2/208) 3127 - [ 2 ] ( صحيح ) وعن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : الأيم أحق بنفسها من وليها والبكر تستأذن في نفسها وأذنها صماتها . وفي رواية : قال : الثيب أحق بنفسها من وليها والبكر تستأمر وإذنها سكوتها . وفي رواية : قال : الثيب أحق بنفسها من وليها والبكر يستأذنها أبوها في نفسها وإذنها صماتها . رواه مسلم
نکاح سے پہلے عورت کی اجازت حاصل کرلینی چاہئے
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایم (یعنی بیوہ بالغہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے اسی طرح کنواری عورت (یعنی کنواری بالغہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے یہ سن کر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس کنواری عورت کی اجازت کیسے حاصل ہوگی ( کیونکہ کنواری عورت تو بہت شرم وحیا کرتی ہے) آپ ﷺ نے فرمایا اس طرح کہ وہ چپکی رہے یعنی کوئی کنواری عورت اپنے نکاح کی اجات مانگے جانے پر اگر بسب شرم و حیاء زبان سے ہاں نہ کرے بلکہ خاموش رہے تو اس کی یہ خاموشی بھی اس کی اجازت سمجھی جائے گی ( بخاری ومسلم)

تشریح
ایم اس عورت کو کہتے ہیں جس کا خاوند نہ ہو خواہ وہ باکرہ ہو (پہلے کبھی اس کی شادی نہ ہوئی ہو) خواہ ثیب ہو کہ پہلے اس کی شادی ہوچکی ہو اور پھر یا تو اس کا خاوند مرگیا ہو یا اس نے طلاق دیدی ہو) لیکن یہاں ایم سے مراد ثیب بالغہ ہے یعنی وہ عورت جو بالغہ ہو اور اس کا پہلا شوہر یا تو مرگیا ہو یا اس نے طلاق دے دی ہو۔ عورت سے اس کے نکاح کی اجازت حاصل کرنے کے سلسلے میں حدیث نے باکرہ کنواری اور ثیب بیوہ کا ذکر اس فرق کے ساتھ کیا ہے کہ ثیب کے بارے میں تو یہ فرمایا گیا کہ جب تک اس کا حکم حاصل نہ کرلیا جائے اور باکرہ کے بارے میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے لہذا حکم اور اجازت کا یہ فرق اس لئے ظاہر کیا گیا ہے کہ ثیب یعنی بیوہ عورت اپنے نکاح کے سلسلہ میں زیادہ شرم و حیاء نہیں کرتی بلکہ وہ خود کھلے الفاظ میں اپنے نکاح کا حکم کرتی ہے یا کم سے کم صریح اشارات کے ذریعہ اپنی خواہش کا ازخود اظہار کردیتی ہے اور اس بارے میں کوئی خاص جھجک نہیں ہوتی اس کے برخلاف باکرہ یعنی کنواری عورت چونکہ بہت زیادہ شرم و حیاء کرتی ہے اس لئے وہ نہ تو کھلے الفاظ میں اپنے نکاح کا حکم کرتی ہے اور نہ صریح اشارات کے ذریعہ ہی اپنی خواہش کا اظہار کرتی ہے ہاں جب اس کے نکاح کی اجازت اس سے لی جائے تو وہ اپنی رضا مندی و اجازت دیتی ہے بلکہ زیادہ تر تو یہ ہوتا ہے کہ طلب اجازت کے وقت وہ زبان سے اجازت دینا بھی شرم کے خلاف سمجھتی ہے اور اپنی خاموشی و سکوت کے ذریعہ ہی اپنی رضا مندی کا اظہار کردیتی ہے۔ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے حکم یا اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں ہوتا لیکن فقہاء کے یہاں اس بارے میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ تمام عورتوں کی چار قسمیں ہیں اول ثیب بالغہ یعنی وہ بیوہ عورت جو بالغ ہو ایسی عورت کے بارے متفقہ طور پر تمام علماء کا قول یہ ہے کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کرنا جائز نہیں ہے بشرطیکہ وہ عاقلہ ہو یعنی دیوانی نہ ہو اگر عاقلہ نہ ہوگی تو ولی کی اجازت سے اس کا نکاح ہوجائے گا۔ دوم باکرہ صغیرہ یعنی وہ کنواری لڑکی جو نابالغ ہو، اس کے بارے میں بھی تمام علماء کا متفقہ طور پر یہ قول ہے کہ اس کے نکاح کے لئے اس کی اجازت کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا ولی اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کرسکتا ہے۔ سوم ثیب صغیرہ یعنی وہ بیوہ جو بالغ نہ ہو اس کے بارے میں حنفی علماء کا تو یہ قول ہے کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر ہوسکتا ہے لیکن شافعی علماء کہتے ہیں کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔ چہارم باکرہ بالغہ یعنی وہ کنواری جو بالغہ ہو، اس کے بارے میں حنفی علماء تو یہ کہتے ہیں کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں لیکن شافعی علماء کے نزدیک جائز ہے۔ گویا تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ حنفی علماء کے نزدیک ولایت کا مدار صغر پر ہے یعنی ان کے نزدیک ولی کو عورت کی اجازت کے بغیر نکاح کردینے کا حق اسی صورت میں حاصل ہوگا جب کہ وہ کمسن یعنی نابالغ ہو خواہ وہ باکرہ کنواری ہو یا ثیب بیوہ ہو جب کہ شافعی علماء کے نزدیک ولایت کا مدار بکارت پر ہے یعنی ان کے نزدیک ولی کو عورت کی اجازت کے بغیر نکاح کردینے کا حق اس صورت میں حاصل ہوگا جب کہ وہ باکرہ ہو خواہ بالغ ہو یا نابالغ ہو۔ لہذا یہ حدیث حنفیہ کے نزدیک بالغہ پر محمول ہے خواہ وہ ثیب ہو یا باکرہ ہو اور آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی حدیث (ولا تنکح البکر حتی تستاذن) (کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے) شوافع کے قول کے خلاف ایک واضح دلیل ہے۔ اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایم یعنی وہ عورت جو بیوہ بالغہ اور عاقلہ ہو اپنے نکاح کے معاملہ میں اپنے ولی سے زیادہ خود اختیار رکھتی ہے اور کنواری لڑکی جو بالغ ہو بھی اس کی حق دار ہے کہ اس کے نکاح کی اس سے اجازت حاصل کی جائے اور اس کی اجازت اس کا خاموش رہنا ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی زبان سے اجازت دے بلکہ اس کی شرم و حیاء کے پیش نظر اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت کے لئے کافی ہے) ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ثیب یعنی بیوہ عورت اپنے بارے میں اپنے والی سے زیادہ خود اختیار رکھتی ہے اور کنواری لڑکی سے بھی اس کے نکاح کی اجازت حاصل کی جائے اور اس کی اجازت اس کا خاموش رہنا ہے۔ اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ثیب اپنے بارے میں اپنے ولی سے زیادہ خود اختیار رکھتی ہے اور کنواری لڑکی بھی اس کا باپ اس کے نکاح کے بارے میں اجازت حاصل کرے اور اس کی اجازت اس کا چپ رہنا ہے ( مسلم) تشریح اپنے ولی سے زیادہ خود اختیار رکھتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ بیوہ عورت اپنے نکاح کی اجازت دینے یا نہ دینے کے معاملے میں بالکل خود مختار ہے اور یہ کہ جب تک وہ خود اپنی زبان سے اجازت نہ دے دے اس کا نکاح نہیں ہوگا بخلاف کنواری عورت کے کہ اس کے لئے زبان سے اجازت دینا ضروری نہیں ہے بلکہ وہ خاموشی کے ذریعہ بھی اپنی اجازت کا اظہار کرسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں باقی تفصیل و تشریح وہی ہے جو اس سے پہلے ذکر کی گئی ہے۔ یہاں جو کئی رواتیں نقل کی گئی ہیں ان میں صرف تھوڑا سا اختلاف ہے مفہوم و معنی کے اعتبار سے تمام روایتیں تقریبًا یکساں ہیں۔
Top