مشکوٰۃ المصابیح - یہودیوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دینے کا بیان - حدیث نمبر 3955
عن ابن عمر : أن عمر بن الخطاب رضي الله عنهما أجلى اليهود والنصارى من أرض الحجاز وكان رسول الله صلى الله عليه و سلم لما ظهر على أهل خيبر أراد أن يخرج اليهود منها وكانت الأرض لما ظهر عليها لله ولرسوله وللمسلمين فسأل اليهود رسول الله صلى الله عليه و سلم أن يتركهم على أن يكفوا العمل ولهم نصف الثمر فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : نقركم على ذلك ما شئنا فأقروا حتى أجلاهم عمر في إمارته إلى تيماء وأريحاء
حجاز سے یہودو نصاریٰ کی جلا وطنی کا کام حضرت عمر کے ہاتھوں انجام پایا
اور حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ سر زمین حجاز یعنی جزیرۃ العرب سے یہود و نصاریٰ کی جلا وطنی کا کام حضرت عمر ابن خطاب ؓ کے ہاتھوں انجام پایا۔ (اس سے پہلے) جب رسول کریم ﷺ کو اہل خیبر پر غلبہ حاصل ہوا تھا تو آپ ﷺ نے یہودیوں کو خیبر سے نکال دینے کا ارادہ کیا تھا کیونکہ (جس بھی) زمین پر ( دین حق کو) غلبہ حاصل ہوتا ہے وہ زمین اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کی ہوجاتی ہے ( کہ وہاں صرف اللہ ہی کا دین غالب اور مسلمانوں ہی کو حق تصرف و حکمرانی حاصل ہوتی ہے) لیکن یہودیوں نے رسول کریم ﷺ سے یہ درخواست کی کہ آپ ﷺ ان ( یہودیوں کو) اس شرط پر ( خیبر کی زمینوں پر قابض و متصرف) رہنے دیں کہ وہ محنت کریں ( یعنی باغات کی دیکھ بھال اور ان کی سیرابی وغیرہ کا سارا کام کریں گے) اور ( ان سے پیدا ہونے والے) پھلوں کا آدھا حصہ آپ ﷺ کا ہوگا۔ چناچہ رسول کریم ﷺ نے ( ان کی یہ درخواست منظور کرلی لیکن یہ) فرمایا کہ ہم تمہیں اس شرط پر ( خیبر میں) اسی وقت رہنے دیں گے جب تک کہ ہم چاہیں گے اس کے بعد ان کو خیبر میں رہنے دیا گیا یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ان سب کو تیماء اور اریحاء کی طرف جلا وطن کردیا۔ ( بخاری ومسلم )
Top