مشکوٰۃ المصابیح - جزیہ کا بیان - حدیث نمبر 3939
وعن عقبة بن عامر قال : قلت : يا رسول الله إنا نمر بقوم فلا هم يضيفونا ولا هم يؤدون ما لنا عليهم من الحق ولا نحن نأخذ منهم . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن أبوا إلا أن تأخذوا كرها فخذوا . رواه الترمذي
ذمّیوں سے معاہدہ کی شرائط زبر دستی کرائی جا سکتی ہیں
اور حضرت عقبہ ابن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم جب ( جہاد کو جاتے) ہوئے ایک (فلاں) قوم ( کی آبادی) میں سے گذرتے ہیں تو وہ لوگ نہ ہماری میزبانی کرتے ہیں اور نہ ہمیں وہ چیز دیتے ہیں جس کا ہم ( از روئے اسلام) ان پر حق رکھتے ہیں ( یعنی اسلام کی رو سے ان پر ہمارا جو یہ حق ہے کہ وہ قرض وغیرہ دے کر ہماری ضرورتیں پوری کریں اور ہماری دیکھ بھال کریں وہ اس کو پورا نہیں کرتے) اور (چونکہ) ہم ان سے کوئی چیز ( زبردستی) حاصل نہیں کرتے ( اس لئے ہم سخت پریشان ہوتے ہیں اور ان کے اس رویہ کی وجہ سے ہمیں بڑی اضطراری حالت اور بڑے نقصان میں مبتلا ہونا پڑتا ہے) چناچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ لوگ ( تمہاری میزبانی کرنے یا تمہارے نقد و ادھار کوئی چیز فروخت کرنے سے انکار کریں اور (اس صورت میں) ان سے کوئی چیز زبردستی لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو (زبردستی) لے لو۔ (ترمذی)

تشریح
جن لوگوں کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے وہ دراصل ذمی تھے ( جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا بلکہ جزیہ ادا کر کے اسلامی قلم رو میں آباد تھے) اور ان کو ذمی بناتے وقت ان کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اس میں ان پر یہ شرط عائد کی گئی تھی جو مسلمان جہاد کے لئے جاتا ہو اور ان کے ہاں سے گذرے وہ اس کی میز بانی کریں، لیکن انہوں نے اس شرط سے رو گردانی کی چناچہ جو مسلمان جہاد کو جاتے ہوئے ان کے ہاں ٹھہر تے وہ نہ صرف یہ کہ ان کی میزبانی نہ کرتے بلکہ ان کے ہاتھ غلہ وغیرہ بھی فروخت نہیں کرتے تھے، جب مسلمانوں نے اس صورت حال سے تنگ آکر آنحضرت ﷺ سے اس بارے میں عرض کیا تو آپ ﷺ نے مذکو رہ حکم ارشاد فرمایا۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ ان ذمیوں پر پہلے سے اس طرح کی کوئی شرط عائد نہ کی گئی ہو تو اس صورت میں ان کے ہاں ٹھہر نے والے مسلمان کے لئے جو غیر مضطر ہو، یہ جائز نہیں ہوگا کہ وہ ان کے مال و اسباب ان کی رضا اور خوشی کے بغیر لے۔
Top