مجو سیوں سے جزیہ لیا جاسکتا ہے
حضرت بجالہ (رح) (تابعی) کہتے ہیں کہ میں حضرت جزء ابن معاویہ (رح) (تابعی) کے ہاں جو حضرت احنف ؓ (صحابی) کے چچا تھے، منشی تھا۔ ایک مرتبہ) ہمارے پاس حضرت ( امیر المؤ منین) عمر بن خطاب ؓ کا ان کی وفات سے ایک سال پہلے ایک مکتوب آیا جس میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ مجو سیوں یعنی آتش پرستوں میں ان کے محارم کے درمیان تفریق کرادو۔ نیز ( راوی کہتے ہیں کہ) عمر ؓ (پہلے) مجو سیوں سے جزیہ نہیں لیا کرتے تھے یہاں تک کہ جب حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف ؓ نے گواہی دی ( یعنی انہوں نے یہ بیان کیا) کہ رسول کریم ﷺ نے ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا ( تب حضرت عمر ؓ نے مجو سیوں سے جزیہ لینا شروع کیا۔ (بخاری) ِ
تشریح
محرم اس قریبی رشتہ دار کو کہتے ہیں جس سے نکاح جائز ہو ماں، بیٹی اور بہن وغیرہ۔ مجوسیوں میں یہ دستور تھا کہ وہ اپنے محرم سے شادی کرلیا کرتے تھے، چناچہ حضرت عمر فاروق ؓ نے یہ حکم بھیجا کہ جن مجوسیوں نے اپنے محارم سے شادی کر رکھی ہو ان میاں بیوی کے درمیان تفریق کرادو یعنی ان کی شادی فسخ قرار دے دو۔ اگرچہ اسلامی قانون کا یہ ضابطہ ہے کہ جو غیر مسلم اسلامی ریاست کے ذمہ و حفاظت میں ہوں ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے بلکہ ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی دی جائے اور یہ بات ( یعنی اپنے محرم سے شادی) چونکہ ان کے مذہب میں جائز تھی اس لئے حضرت عمر ؓ کا یہ حکم دینا بظاہر ایک سوالیہ نشان ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ اسلامی ریاست کی طرف سے ذمّیوں کو اپنے مذہبی معاملات میں پوری آزادی حاصل ہوتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امام وقت کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اسلامی قلم رو میں جہاں صرف اللہ کا اتارا ہوا قانون نافذ و جاری ہوتا ہے کسی بھی ایسے عمل کو روک دے جو براہ راست اسلامی شعار کے منافی اور دین کے بنیادی اصولوں اور قانون حکومت کے مخالف ہو۔ چناچہ مجوسیوں کا اپنے محرم سے شادی کرنا بھی چونکہ نہ صرف اسلامی شعار کے صریح مخالف ہی تھا بلکہ اخلاقی اور سماجی طور پر بھی نہایت مذموم اور شنیع فعل تھا اس لئے حضرت عمر ؓ نے اس طرح کی شادیوں کو ختم کردینے کا حکم صادر فرمایا۔ مجوسیوں کے بارے میں جمہور علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ان سے جزیہ لیا جائے بلکہ حنفیہ کے نزدیک عجمی بت پرستوں سے بھی جزیہ لیا جائے لیکن اس میں حضرت امام شافعی (رح) کا اختلافی قول ہے۔ ہجر ایک جگہ کا نام ہے جو بعض حضرات کے نزدیک یمن میں بحرین کے قریب ایک شہر تھا، مگر موجودہ محققین کے مطابق جزیرہ نمائے عرب کا مشرقی ساحل جو احساء کہلاتا ہے پہلے ہجر کے نام سے موسوم تھا اور اسی کو بحرین بھی کہتے تھے۔ وذکر حدیث بریدۃ اذا امرا میرا علی جیش فی باب الکتاب الی الکفار اور حضرت بریدہ کی روایت اذا امرا میرا الخ باب الکتاب الی الکفار میں نقل کی جاچکی ہے۔