ذوی القربیٰ میں مال خمس کی تقسیم کے موقع پر حضرت عثمان وغیرہ کی محرومی
اور حضرت جبیر ابن مطعم کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ نے (مال غنیمت میں سے اپنے قرابتداروں کا حصّہ (یعنی خمس کہ جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے) بنو ہاشم اور بنو مطلب کے درمیان تقسیم کیا تو میں یعنی جبیر (بنو نوفل کی طرف سے) اور عثمان ابن عفان ( بنو عبد شمس کی طرف سے) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہمارے یہ بھائی جن کا تعلق بنو ہاشم سے ہے، ہم ان کی فضیلت و بزرگی کا تو انکار نہیں کرتے کیونکہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ان میں پیدا کیا ہے لہٰذا اس اعتبار سے ہماری بہ نسبت وہ آپ کے زیادہ قریب ہیں ( کیونکہ ان کے اور آپ ﷺ کے جد ایک ہی ہیں (یعنی ہاشم) اگرچہ ہمارے اور ان کے جد اعلیٰ بھی ایک ہی ہیں) (یعنی عبد مناف) لیکن ہمیں یہ بتایئے کہ اس کا کیا سبب ہے کہ آپ ﷺ نے (خمس کے مال میں سے جو ذوی القربیٰ کا حصّہ ہے) ہمارے ان بھائیوں کو تو حصّہ دیا جن کا تعلق بنو مطلب سے ہے اور ہمیں محروم رکھا جب کہ ہماری یعنی بنو نوفل اور بنی عبد شمس کی اور ان کی یعنی بنی مطلب کی قرابت ایک ہی ہے (بایں طور کہ جس طرح ان کے دادا ہاشم کے بھائی تھے اسی طرح ہمارے دادا بھی ہاشم کے بھائی تھے گویا ان دونوں حضرات کی غرض کا حاصل یہ تھا کہ مال غنیمت میں سے جو خمس نکالا جاتا ہے وہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق آپ ﷺ کے قرابت داروں کا حصّہ ہے، چناچہ آپ ﷺ نے اپنے قرابت داروں کی ایک شاخ بنو مطلب کو مال خمس میں سے دیا لیکن دوسری دو شاخوں یعنی بنو نوفل اور بنو عبد شمس کو کچھ نہیں دیا، جب کہ یہ ساری شاخیں ایک ہی جد اعلیٰ یعنی عبد مناف کی اولاد ہیں، تو اس امتیازی سلوک کی کیا وجہ ہے؟ ) آنحضرت ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان داخل کر کے (اور اس کی طرف اشارہ کر کے) فرمایا کہ (میں) اس کے علاوہ اور کچھ نہیں (جانتا) کہ (جس طرح دونوں ہاتھوں کی یہ انگلیاں باہم مل کر ایک چیز ہوگئی ہیں اسی طرح) بنو ہاشم اور بنو مطلب بھی ایک چیز ہیں۔ (شافعی) ابوداو د اور نسائی کی روایت بھی اسی طرح ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہم اور مطلب کی اولاد، نہ زمانہ جاہلیت میں کبھی ایک دوسرے کے مخالف ہوئے اور نہ زمانہ اسلام میں، لہٰذا اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ہم اور وہ، دونوں ایک چیز ہیں یہ کہہ کر آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کیں۔