مشکوٰۃ المصابیح - مال غنیمت کی تقسیم اور اس میں خیانت کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3910
وعن محمع بن جارية قال : قسمت خيبر على أهل الحديبية فقسمها رسول الله صلى الله عليه و سلم ثمانية عشر سهما وكان الجيش ألفا وخمسمائة فيهم ثلاثمائة فارس فأعطى الفارس سهمين والراجل سهما رواه أبو داود وقال : حديث ابن عمر أصح فالعمل عليه وأتى الوهم في حديث مجمع أنه قال : إنه قال : ثلاثمائة فارس وإنما كانوا مائتي فارس
خیبر کے مال غنیمت کی تقسیم
اور حضرت مجمع بن جاریہ کہتے ہیں کہ خیبر ( میں حاصل شدہ مال غنیمت اور زمین) کو ان لوگوں کے درمیان تقسیم کیا گیا جو حدیبیہ کی صلح میں شریک تھے، چناچہ رسول کریم ﷺ نے اس ( خیبر کے مال غنیمت اور زمین) کو اٹھارہ حصوں پر تقسیم کیا اور (صلح حدیبیہ میں شریک) لشکر کی تعداد پندرہ سو آدمیوں پر مشتمل تھی جن میں تین سو سوار تھے، اس طرح سوار کو آپ ﷺ نے دو حصے دئیے اور پیادہ کو ایک حصہ۔ ابوداؤد نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس بارے میں ابن عمر کی روایت زیادہ صحیح ہے اور اسی پر اکثر آئمہ نے عمل کیا ہے نیز مجمع کی ( اس) روایت میں واہمہ واقع ہوا ہے کہ انہوں ( مجمع) نے کہا ہے کہ تین حالانکہ سواروں کی تعداد دو سو تھی۔

تشریح
جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ مال غنیمت میں اسلامی لشکر کے سوار مجاہد کے دو حصے ہیں جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے، وہ اس حدیث مجمع کو اپنے مسلک کی دلیل قرار دیتے ہیں، کیونکہ جب اٹھارہ حصوں میں سے تین سو سواروں میں ہر سو سوار کو دو دو حصے دئیے گئے تو چھ حصے ہوگئے اور بارہ حصے باقی بچے۔ چناچہ ان بارہ حصوں کو بارہ سو پیادوں کے درمیان اس طرح تقسیم کیا گیا کہ ہر سو پیادوں کو ایک حصہ ملا۔ جب کہ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ مال غنیمت میں سوار مجاہد کے تین حصے ہیں، ان کے اعتبار سے یہ حساب درست نہیں۔ بیٹھتا، کیونکہ اس صورت میں سواروں پر نو حصوں کی تقسیم لازم آتی ہے اور بارہ حصے پیادوں کے ہوئے، اس حساب سے ان حصوں کی مجموعی تعداد اکیس ہوتی ہے حالانکہ حدیث میں مجموعی تعداد اٹھارہ بیان کی گئی ہے، دوسرے یہ کہ حضرت ابن عباس اور خود حضرت ابن عمر سے بھی حضرت مجمع جیسی روایت منقول ہے، ان سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ سواروں کو دو دو ہی حصے دئیے گئے تاہم جن حضرات کے نزدیک سواروں کے تین حصے ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں حضرت ابن عمر ہی کی روایت ( جو اسی باب کی پہلی فصل میں نقل کی جا چکی ہے) زیادہ صحیح و ثابت اور فیصلہ کن ہے۔ جہاں تک حنیفہ کا تعلق ہے، وہ حضرت ابن عمر کی اس روایت پر جس وجہ سے عمل نہیں کرتے وہ اس روایت کی تشریح میں بیان کی جا چکی ہے۔ روایت کے آخر میں جس واہمہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کی بنیاد اختلاف روایت پر ہے، چناچہ اس بارے میں مختلف روایتیں منقول ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اسلامی لشکر کی تعداد کتنی تھی، ایک روایت تو یہی ہے جو حضرت مجمع نے نقل کی ہے کہ پندرہ سو کی تعداد تھی جس میں تین سو سوار تھے لیکن ایک روایت میں یہ تعداد چودہ سو بیان کی گئی ہے جو بارہ سو پیادوں اور دو سو سواروں پر مشتمل تھی۔
Top