مشکوٰۃ المصابیح - مال غنیمت کی تقسیم اور اس میں خیانت کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3902
وعن جبير بن مطعم قال : مشيت أنا وعثمان بن عفان إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقلنا : أعطيت بني المطلب من خمس خيبر وتركتنا ونحن بمنزلة واحدة منك ؟ فقال : إنما بنو هاشم وبنو المطلب واحد . قال جبير : ولم يقسم النبي صلى الله عليه و سلم لبني عبد شمس وبني نوفل شيئا . رواه البخاري
خیبر کے مال خمس میں سے بنو عبد شمس اور بنو نو فل کی محرومی
اور حضرت جبیر ابن مطعم کہتے ہیں کہ میں اور حضرت عثمان ابن عفان نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ ﷺ نے خیبر کے خمس میں سے بنو مطلب کو حصہ دیا اور ہم کو نہیں دیا حالانکہ آپ ﷺ کے اعتبار سے ہم سب ایک ہی مرتبہ کے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ( میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ( جانتا) کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہیں۔ حضرت جبیر کہتے ہیں کہ اور نبی کریم ﷺ نے بنو عبد شمس ( یعنی حضرت عثمان وغیرہ) اور بنو نوفل ( یعنی حضرت جبیر وغیرہ) کو کوئی حصہ نہیں دیا۔ ( بخاری )

تشریح
ہم سب ایک ہی مرتبہ کے ہیں کا مطلب یہ تھا کہ میں، حضرت عثمان بنو ہاشم اور بنو مطلب، آپ ﷺ کے اعتبار سے ایک ہی درجہ کے ہیں بایں طور کہ ہم سب ایک ہی جد اعلی یعنی عبد مناف کی اولاد ہونے کی وجہ سے ایک ہی سلسلہ کی کڑی ہیں اور وہ یوں کہ ہاشم، مطلب، نوفل اور عبد شمس، یہ چاروں عبد مناف کے بیٹے تھے جو ہمارے اور آپ ﷺ کے چوتھے جد ہیں، چناچہ میں، جبیر ابن مطعم ابن عدی ابن نوفل ابن عبد مناف ہوں، حضرت عثمان ابن عفان ابن ابوالعاص ابن امیر ابن عبد شمس ابن عبد مناف ہیں اور آپ ﷺ محمد ابن عبداللہ ابن عبدالمطلب ابن ہاشم ابن عبد مناف ہیں۔ اس طرح ہم سب ایک ہی سلسلہ نسب کی کڑی ہیں تو پھر ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آپ ﷺ نے خیبر سے آئے ہوئے مال کے خمس میں سے اس سلسلہ نسب کی ایک شاخ بنو مطلب کو تو حصہ دیا لیکن ہمیں یعنی عبد شمس اور بنو نوفل کو کیوں محروم رکھا؟ اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہیں تو اس کا حاصل یہ تھا کہ اگرچہ یہ چاروں ایک ہی سلسلہ نسب کی کڑی اور ایک ہی جد اعلی عبد مناف کی اولاد ہونے کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے فرد ہیں لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ تعلقات و معاملات کے اعتبار سے اصل میں صرف بنو ہاشم اور بنو مطلب ہی ایک مرتبہ کے اور چیز واحد کے مانند ہیں کیونکہ وہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے ممد ومعاون رفیق و غمگسار اور ایک دوسرے کے دست وبازو ہیں۔ ان دونوں کے درمیان نہ زمانہ جاہلیت میں مخالفت و منافرت تھی اور نہ اب زمانہ اسلام میں کوئی اختلاف و انتشار ہے جب کہ تم دونوں یعنی بنو عبد شمس اور بنو نوفل زمانہ جاہلیت میں بنو ہاشم اور بنو مطلب کے حریف و مخالف رہے ہو چناچہ اس کی تفصیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مرتبہ نبوت پر فائز ہونے کے بعد مکہ میں اسلام کی تبلیغ شروع کی اور کفار قریش کو اللہ کی وحدانیت اور اپنی رسالت کی طرف بلایا تو بنو عبد شمس اور بنو نوفل ( کے لوگوں) نے آپ ﷺ کی دعوت و تبلیغ کی سخت مخالفت ہی نہیں کی بلکہ آپ ﷺ کے درپے آ زار بھی ہوئے، یہاں تک کہ ان دونوں یعنی بنو عبد شمس اور بنو نوفل نے اسی مخالفت و عداوت کی بناء پر آپس میں ایک دوسرے سے عہد کیا کہ جب تک بنو ہاشم کے لوگ، محمد ﷺ کو ہم میں سے کسی ایک کے حوالے نہ کردیں اس وقت تک ہم بنو ہاشم کے ساتھ بیاہ شادی، لین دین اور خریدو فروخت کا کوئی معاملہ نہیں کریں گے۔ اس وقت بنو مطلب نے بنو ہاشم کے ساتھ پورا تعاون کیا اور ان کے ساتھ متفق و متحد رہے! لہذا آنحضرت ﷺ نے بنو عبد شمس ( یعنی حضرت عثمان وغیرہ) بنو نوفل ( یعنی حضرت جبیر وغیرہ) کو خیبر کے خمس میں سے کوئی حصہ نہیں دیا باوجودیکہ وہ آنحضرت ﷺ کے ذوی القربی میں سے تھے کیونکہ ان کے اور بنو ہاشم کے درمیان کوئی اتفاق و اتحاد نہیں تھا جب کہ بظاہر دونوں کے درمیان مخالفت و منافرت تھی۔
Top