مشکوٰۃ المصابیح - مال غنیمت کی تقسیم اور اس میں خیانت کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3901
وعنه قال : ذهبت فرس له فأخذها العدو فظهر عليهم المسلمون فرد عليه في زمن رسول الله صلى الله عليه و سلم . وفي رواية : أبق عبد له فلحق بالروم فظهر عليهم المسلمون فرد عليه خالد بن الوليد بعد النبي صلى الله عليه و سلم . رواه البخاري
مسلمانوں کے ان جانوروں اور غلا موں کا حکم جو دشمنوں کے ہاتھ لگ جائیں اور پھر مال غنیمت میں واپس آئیں
اور حضرت ابن عمر کے بارے میں منقول ہے کہ ( ایک مرتبہ) ان کا گھوڑا بھاگ گیا جس کو دشمنوں ( یعنی کافروں) نے پکڑ لیا، پھر جب مسلمانوں کو ان دشمنوں پر فتح حاصل ہوئی اور ان کے مال غنیمت میں وہ گھوڑا بھی آیا) تو ابن عمر کو ان کا گھوڑا واپس کردیا گیا ( اور اس کو مال غنیمت میں شمار نہیں کیا گیا) یہ واقعہ رسول کریم ﷺ کے زمانے کا ہے۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ ابن عمر کا غلام بھاگ کر روم پہنچ گیا، پھر جب مسلمانوں رومیوں پر فتح حاصل ہوئی تو خالد بن ولید نے ابن عمر کو ( ان کا غلام) واپس کردیا۔ یہ نبی کریم ﷺ کے زمانے کے بعد کا واقعہ ہے۔ ( بخاری)

تشریح
ابن ملک کہتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا اگر کافر مسلمانوں کے بھاگے ہوئے غلام کو پکڑ لیں تو وہ اس کے مالک نہیں ہوتے، چناچہ ان کافروں پر مسلمانوں کے غلبہ حاصل کرلینے کی صورت میں اگر وہ غلام مال غنیمت کے ساتھ مسلمانوں کے قبضے میں آجائے تو یہ واجب ہے کہ وہ غلام اس کے مالک کو واپس کردیا جائے خواہ یہ واپسی مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے عمل میں آجائے یا تقسیم کے بعد واپس کرنا پڑے۔ اور ابن ہمام کہتے ہیں کہ اگر کسی مسلمان یا ذمی کا مسلمان غلام بھاگ کر دارالحرب پہنچ جائے اور وہاں کے کافر اس کو پکڑ لیں تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک وہ کافر اس کے مالک نہیں قرار پائیں گے جب کہ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک وہ کافر اس کے مالک ہوجائیں گے، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا بھی یہی قول ہے لیکن اگر وہ غلام مرتد ہو کر بھاگا ہو اور کافروں نے اس کو پکڑ لیا ہو تو اس صورت میں تمام آئمہ کے نزدیک وہ اس کے مالک قرار پائیں گے۔ اسی طرح اگر کسی مسلمان یا ذمی کا کوئی اونٹ بھاگ کر چلا گیا اور کافروں نے اس کو پکڑ لیا تو وہ اس کے مالک ہوجائیں گے۔
Top