زما نئہ جا ہلیت کے ان معاہدوں کو پورا کرنے کا حکم جو اسلام کے منافی نہ ہوں
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (ایک دن) اپنے خطبہ کے دوران یہ فرمایا کہ زمانہ جاہلیت کی قسم کو پورا کرو، کیونکہ وہ یعنی اسلام اس قسم کو زیادہ ہی ( مضبوط) کرتا ہے ( مطلب یہ ہے کہ اپنی قسم اور اپنے عہد کو پورا کرنا اسلام میں کہیں زیادہ ضروری ہے اس اعتبار سے اسلامی احکام اور ایفاء عہد و حلف میں کوئی تضاد نہیں ہے) اور اسلام میں حلف یعنی قسما قسمی کو رواج نہ دو۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسین ابن ذکوان کی سند سے بہ روایت حضرت عمرو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔
تشریح
قسم کو پورا کرو کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم لوگوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل اپنے زمانہ جاہلیت میں اپنے ما بین ایک دوسرے کی مدد کرنے کا عہد و پیمان باندھا ہو یا قسما قسمی کی ہو تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم اوفوا بالعقود ( اپنے معاہدوں کو پورا کرو) کے بموجب اس عہدوپیمان اور قسموں کو پورا کرو جو اسلام کی تعلیمات و عقائد کے منفی اور دین میں نقصان کا سبب نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا کہ (وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان)۔ (المائدہ ٥ ٢) اور نیکی اور تقوی میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو۔ حاصل یہ کہ اسلام لانے کے بعد زمانہ جاہلیت کے اس عہد و پیمان اور قسم کو پورا کرنا ممنوع ہے جس کا تعلق فتنہ و فساد اور خون ریزی وغیرہ سے ہو جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے (لا حلف فی الاسلام اور زمانہ جاہلیت کے جس عہد و پیمان اور قسم کا تعلق مظلوم و بےکس لوگوں کی امداد و اعانت، قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک اور اسی طرح کے دوسرے نیک امور سے ہو، اسلام ان کا مؤید اور مضبوط کرنے والا ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے حدیث (ایما حلف کان فی الجاھلیۃ لم یزدہ الاسلام الا شدۃ) اسلام میں حلف یعنی قسما قسمی کو رواج نہ دو کیونکہ مسلمانوں پر ایک دوسرے کی مدد اعانت اور باہمی حسن سلوک واجب ہونے کے لئے ان کے مذہب اسلام کی تعلیم و تلقین کافی ہے۔ طیبی کہتے ہیں کہ اسلام میں حلف کو رواج نہ دو میں جو ممانعت بیان کی گئی ہے اس کے بارے میں دونوں احتمال ہیں ایک تو یہ کہ یہ ممانعت جنس کے لئے ہو لیکن ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک دوسرا ہی احتمال زیادہ قومی اور صائب ہے چناچہ مظہر کا یہ قول بھی اس بات کی تائید کرتا ہے جو مذکورہ بالا حدیث کی وضاحت کے طور پر ہے کہ اس ارشاد گرامی کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اگر تم نے اپنے زمانے جاہلیت میں (یعنی مسلمان ہونے سے پہلے) یہ قسم کھائی ہو کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے تو (اب مسلمان ہوجانے کے بعد بھی) اس قسم کو پورا کرو یعنی اپنے باہمی معاہدہ حلف کے مطابق ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو بشرطیکہ جس کی مدد کی جائے وہ حق پر ہو لیکن اسلام میں اس طرح کی قسم کو رواج نہ دو جس کا تعلق تمہیں ایک دوسرے کا وارث قرار دینے سے ہو (جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ کوئی بھی دو شخص آپس میں ایک دوسرے سے قسم کے ساتھ عہد کیا کرتے تھے کہ اگر میں پہلے مرگیا تو تم میرے وارث ہو گے اور اگر تم پہلے مرگئے تو میں تمہارا وارث ہوں گا) وذکر حدیث علی المسلمون تتکا فادمائھم فی کتاب القصاص۔ اور حضرت علی کی یہ روایت، المسلمون تتکا فادمائھم کتاب القصاص میں نقل کی جا چکی ہے۔