مشکوٰۃ المصابیح - قیدیوں کے احکام کا بیان - حدیث نمبر 3888
عن ابن عمر قال : بعث النبي صلى الله عليه و سلم خالد بن الوليد إلى بني جذيمة فدعاهم إلى الإسلام فلم يحسنوا أن يقولوا : أسلمنا فجعلوا يقولون : صبأنا صبأنا فجعل خالد يقتل ويأسر ودفع إلى كل رجل منا أسيره حتى إذا كان يوم أمر خالد أن يقتل كل رجل منا أسيره فقلت : والله لا أقتل أسيري ولا يقتل رجل من أصحابي أسيره حتى قدمنا إلى النبي صلى الله عليه و سلم فذكرناه فرفع يديه فقال : اللهم إني أبرأ إليك مما صنع خالد مرتين . رواه البخاري
حضرت خالد کی طرف سے عدم احتیاط کا ایک واقعہ
حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے خالد ابن ولید کو (ایک قبیلہ) بنی جذیمہ میں بھیجا، خالد نے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، وہ لوگ اضطراب و سراسیمگی کے عالم میں یہ اچھی طرح سے نہیں کہہ سکے کہ ہم اسلام لائے (یعنی وہ اپنی زبانوں سے اسلام کا کلمہ پوری طرح ادا نہیں کرسکے) بلکہ انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ (صبأنا صبأنا) یعنی ہم نے اپنا دین چھوڑ دیا، خالد نے (جب ان کی زبان سے یہ سنا تو) ان (کے بعض لوگوں) کو قتل کرنا اور (بعض کو) گرفتار کرنا شروع کردیا اور پھر ہم (لوگ جو ان کے ساتھ تھے ان) میں سے ہر شخص کو اس کا قیدی سپرد کردیا (یعنی جو لوگ قیدی بنائے گئے ان کو ہمارے درمیان تقسیم کر کے ایک ایک قیدی ہر ایک کے سپرد کردیا اور یہ حکم دیا کہ ہم ان قیدیوں کی اس وقت تک حفاظت و نگرانی کریں جب تک کہ ہمیں ان کو قتل کردینے کا حکم نہ دیا جائے) چناچہ جب ایک (وہ) دن آیا (جس میں خالد نے ان قیدیوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا) تو انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کر دے (یہ حکم سن کر) میں (یعنی ابن عمر) نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی شخص اپنی قیدی کو قتل کرے گا (بلکہ ہم لوگ اپنے قیدیوں کو اس وقت تک اپنی حفاظت میں رکھیں گے جب تک کہ ہم دربار رسالت میں نہ پہنچ جائیں اور اس بارے میں کوئی آخری حکم حاصل نہ کریں چناچہ ہم نے اپنے قیدیوں کو اپنی حفاظت میں رکھا) یہاں تک کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے سامنے پورا واقعہ بیان کیا، آنحضرت ﷺ نے (واقعہ کی تفصیل سن کر) اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کر کے یہ کہا کہ اے اللہ! میں تیرے حضور میں خالد کے عمل سے اپنی بیزاری وبے رضائی کا اظہار کرتا ہوں۔ آپ نے یہ الفاظ دو مرتبہ ارشاد فرمائے۔ (بخاری)

تشریح
خطابی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے بار گاہ رب العزت میں حضرت خالد کے عمل سے اس لئے اظہار بیزاری فرمایا کہ خالد نے اس موقع پر احتیاط کی راہ اختیار نہیں کی اور اس بات میں غور وتامل نہیں کیا کہ وہ لوگ صبأنا سے کیا مراد رکھتے تھے کیونکہ یہ لفظ صبأنا دین اسلام اختیار کرلینے کے مفہوم کا بھی احتمال رکھتا تھا لیکن خالد نے محض یہ دیکھ کر کہ ان لوگوں نے قبولیت اسلام کے مفہموم کو واضح طور پر ظاہر کرنے والے الفاظ اسلمنا استعمال کرنے سے روگرادنی کی ہے اس لئے انہوں نے ان لوگوں کی بات کو تسلیم نہیں کیا اور ان کے کہے ہوئے مذکور الفاظ کو ان کے بد دین ہوجانے پر محمول کر کے ان کو قتل کرنا اور قیدی بنانا شروع کردیا۔
Top