مشکوٰۃ المصابیح - جہاد میں لڑنے کا بیان - حدیث نمبر 3872
وعن ابن عمر قال : بعثنا رسول الله صلى الله عليه و سلم في سرية فحاص الناس حيصة فأتينا المدينة فاختفينا بها وقلنا : هلكنا ثم أتينا رسول الله صلى الله عليه و سلم فقلنا : يا رسول الله نحن الفارون . قال : بل أنتم العكارون وأنا فئتكم . رواه الترمذي . وفي رواية أبي داود نحوه وقال : لا بل أنتم العكارون قال : فدنونا فقبلنا يده فقال : أنا فئة من المسلمين وسنذكر حديث أمية بن عبد الله : كان يستفتح وحديث أبي الدرداء ابغوني في ضعفائكم في باب فضل الفقراء إن شاء الله تعالى
نئی کمک لانے کی غرض سے میدان جنگ سے بھاگ آنا جائز ہے
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ نے (کسی جگہ جہاد کرنے کے لئے) ہمارا ایک لشکر بھیجا (وہاں پہنچ کر ہمارے لشکر کے) لوگ بھاگ کھڑے ہوئے، چناچہ ہم مدینہ واپس آئے تو (مارے شرم و ندامت کے) اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھ گئے اور ہم نے (آپس میں اپنے دل میں) کہا کہ دشمنوں کے مقابلہ سے بھاگ کر ہم نے جو گناہ کیا ہے اس کی وجہ سے گویا ہم تو ہلاک ہوگئے پھر تم رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا کہ (یا رسول اللہ ﷺ! ہم تو میدان چھوڑ کر بھاگ آنے والے لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کے (نہیں) بلکہ تم دوبارہ حملہ کرنے والے لوگ ہو اور میں تمہاری جماعت ہوں۔ (ترمذی) اور ابوداؤد نے بھی ایسی روایت نقل کی ہے۔ اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ نہیں بلکہ تم دوبارہ حملہ کرنے والے لوگ ہو۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں (جب ہم نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ نے ہم سے کوئی جواب طلب کرنے یا کوئی سرزنش کرنے کے بجائے اس شفقت آمیز انداز میں ہماری ہمت بڑھائی ہے تو فرط عقیدت و محبت سے) ہم آپ ﷺ کے قریب پہنچے۔ اور آپ ﷺ کے دست مبارک کا بوسہ لیا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں مسلمانوں کی جماعت ہوں۔

تشریح
عکر کے معنی ہیں لوٹنا جنگ میں واپس چلے جانا اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی لشکر اپنی کمزوری محسوس کرتا ہو اور وہ دشمن کے مقابلہ سے اس نیت کے ساتھ بھاگ آئے کہ اپنے مرکز سے نئی مدد لے کر پھر میدان جنگ میں آئیں گے تو یہ گناہ نہیں اور چونکہ تم لوگ اسی نیت کے ساتھ میدان جنگ سے بھاگ آئے ہو اس لئے ندامت اور شرمندگی محسوس کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں مسلمانوں کی جماعت ہوں آپ ﷺ نے اپنی عظمت و برکت کی بناء پر اپنی تنہا ذات شریف کو ایک پوری جماعت قرار دیا جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ آیت (ان ابراہیم کان امۃ)، نیز آپ ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا اپنی مرکزیت کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ میری ذات مسلمانوں کے لئے منبع قوت و طاقت ہے، جہاں سے انہیں مدد ونصرت حاصل ہوتی ہے لہٰذا اے ابن عمر! تم اس عارضی پسپائی سے ہراساں اور دل گرفتہ نہ ہو میں تمہارا بھی مددگار و حامی اور ناصر ہوں۔ وسنذکر حدیث امیۃ بن عبداللہ کان یستفتح وحدیث ابی الدرداء ابغونی فی ضعفائکم فی باب فضل الفقرآء انشاء اللہ تعالیٰ اور امیہ ابن عبداللہ کی روایت کان یستفتح اور ابودرداء کی روایت ابغونی فی ضعفائکم ہم انشاء اللہ فضل الفقراء کے باب میں ذکر کریں گے۔
Top