مشکوٰۃ المصابیح - جہاد میں لڑنے کا بیان - حدیث نمبر 3864
وعن المهلب أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : إن بيتكم العدو فليكن شعاركم : حم لا ينصرون . رواه الترمذي وأبو داود (2/397) 3949 - [ 13 ] ( ضعيف ) وعن سمرة بن جندب قال : كان شعار المهاجرين : عبد الله وشعار الأنصار : عبد الرحمن . رواه أبو داود (2/397) 3950 - [ 14 ] ( حسن ) وعن سلمة بن الأكوع قال : غزونا مع أبي بكر زمن النبي صلى الله عليه و سلم فبيتناهم نقتلهم وكان شعارنا تلك الليلة : أمت أمت . رواه أبو داود
مجاہدین اسلام کے لئے امتیازی علامات
اور حضرت مہلب کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ( غزوہ خندق میں) ہم سے فرمایا کہ اگر دشمن تم پر شبخون مارے تو تمہاری ( یعنی مسلمانوں کی) علامت (حم لا ینصرون) کے الفاظ ہونے چاہئیں ( ترمذی ابوداؤد)

تشریح
فوجی اور جنگی قواعد و ضوابط میں عام طور سے یہ معمول ہوتا ہے کہ فوجیوں کے لئے کچھ مخصوص علامتیں اور نشان متعین کردیئے جاتے ہیں جن سے موافق و مخالف کے درمیان امتیاز کیا جاسکے یہ علامتیں غیر لفظی نشانات کی صورتوں میں تھی متعین ہوتی ہیں جو فوجیوں کے بدن اور وردیوں پر لگائے جاتے ہیں اور لفظی اشارات کی صورت میں بھی ہوتی ہیں جن کو زبان سے ادا کر کے اپنی حیثیت و حقیقت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ چناچہ سربراہ لشکر کی طرف سے اپنے لشکر والوں کو پہلے سے یہ بتادیا جاتا ہے کہ اگر میدان جنگ میں یا کسی اور موقع پر تم سے پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو یہ فلاں لفظ زبان سے ادا کرنا تاکہ اگر پوچھنے والا اپنے ہی لشکر کا فرد ہو تو تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔ خاص طور پر شبخون مارے جانے کے وقت جب کہ عام افراتفری کا عالم ہوتا ہے اور اس موقع پر اپنے اور غیروں کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے اور اکثر اشتباہ ہوجاتا ہے ایسی علامات اور اشاراتی الفاظ کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کل کی رائج الوقت اصطلاحات میں ایسے اشاراتی الفاظ کو انگریزی میں کوڈ ورڈ (code werd) کہتے ہیں۔ لہٰذا غزوہ حنین کے موقع پر جب آنحضرت ﷺ کو دشمن کی طرف سے شبخون مارے جانے کا خطرہ پیدا ہوا تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو آگاہ کردیا کہ وہ ایسی حالت میں اپنی علامت (حٰم لا ینصرون) کے الفاظ کو قرار دیں تاکہ اس کے ذریعہ یہ پہنچانا جائے کہ کون مسلمان ہے اور کون کافر ہے۔ ان الفاظ کے معنی یہ ہیں (اے حم کے اتارنے والے! دشمنوں کو کوئی مدد کو نہ ملے۔ اور حضرت سمرہ ابن جندب کہتے ہیں کہ (کسی غزوے میں) لفظ عبداللہ تو مہاجرین کی علامت تھی اور لفظ عبدالرحمن) انصار کی علامت تھی (ابو داؤد) اور حضرت سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہم نے (ایک مرتبہ) حضرت ابوبکر صدیق کے ہمراہ (یعنی ان کی سربراہی میں) جہاد کیا، چناچہ ہم نے ان (دشمنوں) پر شبخون مارا اور ان کو قتل کیا اور اس رات میں ہماری شناختی علامت امت امت کے الفاظ تھے (ان الفاظ کے معنی ہیں اے اللہ! دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ (ابو داؤد)
Top