مشکوٰۃ المصابیح - جہاد میں لڑنے کا بیان - حدیث نمبر 3860
وعن ابن عمر : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قطع نخل بني النضير وحرق ولها يقول حسان : وهان على سراة بني لؤي حريق بالبويرة مستطير وفي ذلك نزلت ( ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله )
دشمن کے درختوں کو کاٹنے اور جلانے کا مسئلہ
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے بنی نضیر کے کھجوروں کے درختوں کو کاٹنے اور جلانے کا حکم فرمایا اسی کے بارے میں ( دربار سالت ﷺ کے صحابی شاعر حضرت حسان ابن ثابت انصاری نے یہ شعر کہا۔ وہان علی سراۃ بنی لؤی حریق بالبریرۃ مستطیر یعنی بنی لوئی کے سرداروں کے لئے پھیلے ہوئے بویرہ کو جلا ڈالنا آسان ہوگیا۔ نیز اسی کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَا ى ِمَةً عَلٰ ي اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ ) 59۔ الحشر 5)۔ تم نے کھجور کے درخت پر سے جو کچھ کاٹا یا جو کچھ اس کی جڑ پر کھٹا ہوا چھوڑ دیا (یعنی جو کچھ نہیں کاٹا) یہ سب اللہ کے حکم سے ہے۔ (بخاری ومسلم )

تشریح
آنحضرت ﷺ جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو یہاں یہودیوں سے بھی واسطہ پڑا، اس وقت مدینہ میں ان (یہودیوں) کے تین قبائل آباد تھے، بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع، آنحضرت ﷺ نے ایک باہمی معاہدہ کیا جس کے تحت مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان بہت اہم سماجی اور معاشرتی معاملات سے متعلق اور آپس میں میل ملاپ سے رہنے کے بارے میں کچھ دفعات طے ہوئیں جن میں یہودیوں کو مسلمانوں کے سیاسی اور تمدنی حقوق میں صراحت کے ساتھ مساوات دے کر پورے حقوق شہریت عطا کئے گئے اور ان کو مذبہی آزادی دے کر نہایت فیاضانہ رواداری کا رویہ برتا گیا اور مسلمانوں کی طرف سے ان پر عمل بھی کیا گیا، مگر یہودیوں کی طرف سے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی یہاں تک کہ بنو نصیر کے یہودیوں کی طرف سے اس حد تک عہد شکنی کا مظاہر ہوا کہ ان کی جانب سے آنحضرت ﷺ کے قتل کی سازش بھی تیار کرلی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کو اس ناپاک سازش پر مطلع کردیا، چناچہ ان یہودیوں کو مدینہ سے جلا وطن کر کے خیبر بھگا دیا گیا، ان کے کھجوروں کے باغات جلا ڈالے گئے اور ان کے مکانات کو تہس نہس کردیا گیا۔ لؤی لام کے پیش اور ہمزہ کے زبر اور یاء کے تشدید کے ساتھ، نضر ابن کنانہ کی اولاد میں سے ایک شخص کا نام تھا جو آنحضرت ﷺ کے اجداد میں سے ہیں۔ اور بنی لؤی سے مراد قریش کے اشراف ہیں، جو آنحضرت ﷺ کے صحابہ تھے اور آپ ﷺ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ آگئے تھے۔ بویرہ ایک جگہ کا نام تھا جہاں بنو نضیر کے یہودیوں کے باغات تھے اور جن کو صحابہ نے جلا ڈالا تھا۔ منقول ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درختوں کا کاٹنے اور جلا ڈالنے کا حکم دیا تو انہوں نے کہا کہ محمد! آپ تو زمین پر فساد برپا کرنے سے منع کرتے تھے پھر آپ ﷺ نے ہمارے کھجوروں کے ان درختوں کو کیوں کٹوایا اور جلوا ڈالا؟ چناچہ مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی جس نے آنحضرت ﷺ نے حکم کی توثیق کردی اور یہ واضح کردیا کہ ان یہودیوں کو جو سزا دی گئی ہے وہ حکم الہٰی کے مطابق ہے اور اسلام دشمن لوگوں کے درختوں کا کاٹنا اور جلانا جائز ہے۔
Top