مشکوٰۃ المصابیح - آداب سفر کا بیان - حدیث نمبر 3827
وعن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : إذا كان ثلاثة في سفر فليؤمروا أحدهم . رواه أبو داود
سفر میں ایک سے زائد لوگ ہونے کی صورت میں کسی ایک رفیق سفر کو امیر بنا لیا جائے
اور ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اگر ( مثلا سفر میں) تین شخص ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو امیر بنا لینا چاہئے۔ ( ابوداؤد )

تشریح
تین شخص سے مراد جماعت ہے کہ جس کا ادنیٰ درجہ تین ہے، ویسے یہ حکم اس صورت کے متعلق بھی ہے جب کہ دو آدمی بھی ساتھ سفر کر رہے ہوں، یہاں تین کے ذکر پر اکتفا اس لئے کیا گیا ہے کہ پہلے ایک حدیث میں بیان فرمایا جا چکا ہے کہ دو سوار شیطان ہوتے ہیں۔ بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی سفر میں ایک سے زائد لوگ ہوں تو اس صورت میں ان میں سے ایک شخص کو اپنا امیر و سردار مقرر کرلیا جائے جو سب سے افضل ہو اور کسی کو امیر و سردار بنا لینے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ اگر دوران سفر کسی معاملہ میں آپس میں کوئی نزاعی صورت پیدا ہوجائے تو اس امیر و سردار کی طرف رجوع کرلیا جائے اور وہ جو فیصلہ کرے اس کو تسلیم کر کے اپنے نزاع کو ختم کردیا جائے۔ امیر و سردار کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ اپنے تمام رفقاء سفر کے حق میں خیر خواہ، مہربان اور غمگسار ہو اور اپنی سرداری کو اپنے لئے محض وجہ افتخار سمجھ کر کسی بڑائی میں مبتلا نہ ہو بلکہ حقیقی معنی میں اپنے آپ کو اس کا خادم سمجھے جیسا کہ فرمایا گیا ہے۔ حدیث (سید القوم فی السفر خادمہم) یعنی کسی جماعت کا سردار اصل میں اپنی جماعت کا خدمت گزار ہوتا ہے۔
Top