مشکوٰۃ المصابیح - آداب سفر کا بیان - حدیث نمبر 3820
وعن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا طال أحدكم الغيبة فلا يطرق أهله ليلا وعنه أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : إذا دخلت ليلا فلا تدخل على أهلك حتى تستحد المغيبة وتمتشط الشعثة
رات کے وقت سفر سے واپس نہ آنے کی ہدایت
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کی غیر حاضری کا عرصہ طویل ہوجائے ( یعنی اس کو سفر میں زیادہ دن لگ جائیں) تو وہ ( سفر سے واپسی کے وقت) اپنے ( گھر میں) رات کے وقت داخل نہ ہو۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
شرح السنۃ میں ایک یہ روایت منقول ہے کہ حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے اس ممانعت کے بعد ( کا واقعہ ہے کہ) دو آدمیوں نے ( آنحضرت ﷺ کے اس حکم پر عمل نہیں کیا اور) اپنے سفر سے واپسی پر گھر میں داخل ہونے کے لئے رات ہی کا وقت اختیار کیا تو ( جب وہ اپنے اپنے گھر میں داخل ہوئے تو وہاں) ان میں سے ہر ایک نے اپنی بیوں کے ساتھ غیر مردوں کو پایا۔ اور حضرت جابر کہتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ اگر تم ( سفر سے واپسی پر اپنے شہر وآبادی میں) رات کے وقت پہنچو تو اپنے گھر میں داخل نہ ہو جب تک کہ بیوی زیر ناف بالوں کو صاف نہ کرلے اور وہ بیوی کہ جس کے بال پراگندہ ہوں کنگھی چوٹی نہ کرلے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح ان احادیث کا مطلب یہ واضح کرنا ہے کہ سفر سے واپسی کے لئے رات کا وقت اختیار کرنا نا مناسب نہیں ہے بہتر یہ ہے کہ سفر سے واپسی کی ابتداء ایسے وقت کی جائے کہ اپنے گھر والوں کے پاس رات ہونے سے پہلے پہنچ جائے تاکہ رات کے وقت گھر پہنچنے کی وجہ سے گھر والے بےآرام نہ ہوں اور ان کی نیندوں میں خلل نہ پڑے اور اگر اپنے شہر اور اپنی آبادی میں پہنچتے رات ہوجائے تو ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ گھر میں داخل ہونے کے لئے اس وقت تک صبر و انتظار کرے جب تک کہ اس کی بیوی کو اس کا آنا معلوم نہ ہوجائے اور وہ بناؤ سنگار کے ذریعہ اپنے آپ کو آراستہ اور جنسی اختلاط کے لئے تیار نہ کرلے تاکہ شوہر جب اس کے پاس پہنچ جائے تو سفر کی تکان اور جدائی کی پزمردگی، جسمانی انبساط ونشاط میں تبدیل ہوجائے۔ نووی کہتے ہیں کہ یہ چیزیں ( یعنی رات کے وقت سفر سے واپسی اور کچھ دیر انتظار وصبر کئے بغیر گھر میں داخل ہوجانا) اس شخص کے حق میں مکروہ ہیں جو لمبے سفر سے واپس آ رہا ہو، ہاں جو شخص کسی چھوٹے سفر سے واپس آ رہا ہو یا اس کے گھر والوں کو رات کے وقت اس کے پونچنے کی اطلاع سے ہو تو اس کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ جیسا کہ اوپر کی ایک حدیث ( نمبر ١٢) سے واضح ہوا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی بڑے لشکر یا بڑے قافلہ میں ہو اور اس لشکر و قافلہ کی واپسی کی خبر مشہور ہوچکی ہو اور اس کی بیوی کو بھی اس کے آنے کا علم ہو ( کہ وہ لشکر و قافلہ کے ساتھ فلاں رات میں آئے گا) تو اس کے لئے بھی رات کے وقت آنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس لئے کہ اصل مقصد تو بیوی کا اس کے آنے سے پہلے تیار ومستعد رہنا ہے سو وہ اس صورت حال میں حاصل ہے۔ لیکن ملا علی قاری کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی گھر پہنچ کر پہلے دروازہ کھٹکھٹانا اور جواب کا انتظار کرنا ضروری ہوگا۔
Top