مشکوٰۃ المصابیح - قضیوں اور شہادتوں کا بیان - حدیث نمبر 3705
وعن أم سلمة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه و سلم : في رجلين اختصما إليه في مواريث لم تكن لهما بينة إلا دعواهما فقال : من قضيت له بشيء من حق أخيه فإنما أقطع له قطعة من النار . فقال الرجلان : كل واحد منهما : يا رسول الله حقي هذا لصاحبي فقال : لا ولكن اذهبا فاقتسما وتوخيا الحق ثم استهما ثم ليحلل كل واحد منكما صاحبه . وفي رواية قال : إنما أقضي بينكما برأيي فيما لم ينزل علي فيه . رواه أبو داود
اگر ایک ہی چیز کے دو مدعی ہوں تو وہ چیز ان دونوں کے درمیان تقسیم کردی جائے
اور حضرت ام سلمہ نبی کریم ﷺ سے دو آدمیوں کے بارے میں نقل کرتے ہیں جو اپنا ایک میراث کا معاملہ لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں لے کر آئے تھے اور دونوں میں سے کسی کا کوئی گواہ نہیں تھا بلکہ صرف دعوی تھا (یعنی ان میں سے ایک شخص نے دربار رسالت میں دعوی کیا کہ فلاں چیز میری ہے جو مجھے میراث میں ملی ہے اور دوسرے شخص نے بھی اسی چیز کے بارے میں یہی دعوی کیا اور دونوں میں سے کوئی بھی اپنے دعوی کے ثبوت میں گواہ نہیں رکھتا تھا) آپ ﷺ نے (ان دونوں کے جواب سن کر) فرمایا (یاد رکھو) میں جس شخص کے لئے کسی ایسی چیز کا فیصلہ کر دوں جو اس کے بھائی کا حق ہو تو وہ چیز اس کے لئے آگ کے ایک ٹکڑے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگی (یعنی اگر مثلًا مدعی نے کسی ایسی چیز کا دعوی کیا ہے جس کے بارے میں وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کی نہیں ہے بلکہ واقعۃً مدعاعلیہ کی ہے لیکن اس نے جھوٹے گواہوں یا جھوٹی قسم کے ذریعہ اپنا دعوی ثابت کردیا اور میں نے ظاہری قانون کے مطابق اس کی گواہوں اور قسم پر اعتبار کر کے اس کے حق میں فیصلہ کردیا اور وہ چیز اس کو دلوا دی تو اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ چیز اس کے حق میں آگ کا ایک ٹکڑا ثابت ہوگی یعنی اس کو دوزخ کی آگ کا سزاوار بنائے گی) ان دونوں میں سے ہر ایک نے (یہ سن کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا حق میرے ساتھی (یعنی فریق مخالف) کے لئے ہے (میں اپنا دعوی ترک کرتا ہوں) آپ نے فرمایا نہیں! (یہ کیسے ممکن ہے کہ چیز ایک ہو اور اس کے حق دار دو ہوں) بلکہ تم دونوں جاؤ اس چیز کو (آدھو آدھ) تقسیم کرلو اور اپنا اپنا حق لے لو (یعنی تقسیم میں عدل و ایمانداری کو ملحوظ رکھو) اور (یہ طریقہ اختیار کرو کہ پہلے اس چیز کو دو حصے کرلو (اور اگر یہ تنازعہ ہو کہ ان دونوں حصوں میں سے کون سا حصہ کس کو ملے تو) ان دونوں حصوں کو قرعہ پر ڈال لو (تاکہ طے ہوجائے کہ ان دونوں حصوں میں کون سا حصہ کس شخص کو ملے گا اس طرح تم دونوں میں سے ہر ایک اس حصہ کو لے لے جس پر اس کا قرعہ نکلا ہے اور پھر تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اپنا (وہ) حق اپنے ساتھی کو معاف کر دے (جو اس کی طرف سے چلا گیا ہو۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں تم دونوں کے درمیان یہ فیصلہ اپنی رائے اور اپنے اجتہاد سے کر رہا ہوں۔ اس معاملہ میں مجھ پر وحی نازل نہیں ہوئی ہے۔ (ابو داؤد)
Top