مشکوٰۃ المصابیح - قضیوں اور شہادتوں کا بیان - حدیث نمبر 3702
وعن ابن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يجيء قوم تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادته
جھوٹی گواہی دینے والوں کے بارے میں پیشین گوئی
اور حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں یعنی صحابہ پھر وہ جو ان کے متصل ہیں یعنی تابعین اور پھر وہ لوگ جو ان کے متصل ہیں یعنی تابع تابعین اور پھر (آخر میں) ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ ان میں سے ایک گواہی اس کی قسم سے پہلے اور اس کی قسم اس کی گواہی سے پہلے ہوگی۔ (بخاری ومسلم )

تشریح
گواہی قسم سے پہلے اور قسم گواہی سے پہلے ہوگی۔ سے گواہی وقسم میں عجلت پسندی و زیادتی کو بطور کنایہ بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ عجلت میں و زیادتی کی وجہ سے گواہی دینے اور قسم کھانے میں اس قدر لاپرواہ ہوگا کہ کبھی گواہی سے پہلے قسم کھائے گا اور کبھی پہلے گواہی دے گا اور پھر قسم کھائے گا۔ مظہر نے کہا ہے یہ جملہ گواہی وقسم میں تیز روی وعجلت پسندی کی تمثیل کے طور پر ہے یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں اتنی تیزی اور پھرتی دکھایا کرے گا کہ نہ تو اس کو دین کی کوئی پرواہ ہوگی اور نہ وہ ان چیزوں میں کوئی پرواہ کرے گا۔ یہاں تک کہ اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ پہلے قسم کھائے یا پہلے گواہی دے۔ یا یہ کہ اس کو یہ بھی یاد نہیں رہے گا کہ اس نے پہلے قسم کھائی ہے یا پہلے گواہی دی ہے۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی دراصل جھوٹی گواہی اور جھوٹی قسم کے عام ہوجانے کی خبر دینے کے طور پر ہے کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں لوگ گواہی دینے کو پیشہ بنالیں گے اور جھوٹی قسم کھانا ان کا تکیہ کلام بن جائے گا۔ جیسا کہ آجکل عام طور پر رواج ہے کہ پیشہ ور گواہ عدالتوں میں جھوٹی گواہی دیتے پھرتے ہیں اور ان کو اس بات کا ذرہ پھر احساس نہیں ہوتا کہ وہ چند روپوں کی خاطر عدالت میں جھوٹی قسم کھا کر اور جھوٹی گواہی دے کر اپنی آخرت کو کس طرح برباد کر رہے ہیں۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ وہ شخص کبھی تو قسم کے ذریعہ اپنی گواہی کو ترویج دے گا یعنی یوں کہے گا کہ اللہ کی قسم! میں سچا گواہ ہوں۔ اور کبھی گواہی کے ذریعہ اپنی قسم کو ترویج دے گا یعنی اعلان کرتا پھرے گا کہ لوگ میری قسم کے سچے ہونے پر گواہ رہیں۔
Top